سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی چوتھی سماعت بھی بغیر فیصلہ ہوئے ملتوی

منگل 10 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے کی۔ دوران سماعت 2 موقعوں پر چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر کے درمیان تھوڑی نوک جھونک بھی ہوئی، آج کی سماعت میں ایم کیو ایم اور پاکستان بار کونسل کے وکلا نے اپنے دلائل دیے جن کے طویل ہونے پر چیف جسٹس نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 11  بجے تک ملتوی کردی۔

آج کیس کی سماعت کے آغاز پر ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل کی طوالت سے کچھ ناراض ہوتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک بار پھر انہیں اپنی گزارشات مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

ایک موقع پر فیصل صدیقی سے سوال کرنے پر چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر کے درمیان تلخی بھی پیدا ہوگئی، جب چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صدیقی کو دلائل مکمل کرنے دیں۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سوال کرنا ان کا حق ہے، جس پر چیف جسٹس بولے؛ اگر کسی نے مقدمے سے متعلق پہلے سے فیصلہ طے کر لیا ہے تو وہ اس کا اظہار اپنے فیصلے میں کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں فل کورٹ اس کیس کی چوتھی سماعت کررہا ہے۔ گزشتہ سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکلا نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے جبکہ سیاسی جماعتوں کے وکلا  نے آج بھی دلائل جاری رکھے۔

فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ کیس میں فریق نہ ہونے کے باوجود عدالت کے نوٹس پر پیش ہوئے ہیں، سوال ہوا کہ کیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سادہ اکثریت کی قانون سازی سے بدل سکتے ہیں، عدالت کو باز محمد کاکڑ کیس اور سپریم کورٹ ریویو ایکٹ سے متعلق دو فیصلوں کا حوالہ دوں گا۔ ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں

اس موقع پر جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ آرٹیکل 191 میں ’لا‘ کا لفظ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، فیصل صدیقی بولے؛ کنفیوژن ہے کہ آرٹیکل 191 میں ’لا‘ کے لفظ کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ رولز میں رد و بدل ہے یا نہیں، آرٹیکل 191 میں لفظ ’لا‘ کا مطلب ہے کہ وہ کسی قسم کا قانونی اختیار تو دے رہا ہے۔

چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں یہاں آپ کو سننے کے لیے بیٹھا ہوں، میں بینچ ارکان سے گزارش کروں گا کہ وکیل صاحب کو اپنے دلائل مکمل کرنے دیں، اس کے بعد سوالات کریں۔ اس موقع پر فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کے ہنسنے پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کوئی ہنسنے کی بات ہے، آج اس مقدمے کی چوتھی سماعت ہے، ہم پورا سال یہ مقدمہ نہیں سن سکتے۔

فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ایم کیو ایم نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے ایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت ہیں مگر میرٹ پر خارج کی جائیں۔

جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ کیا لیجسلیٹیو اینٹریز پارلیمینٹ کو سپریم کورٹ پر سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں، یہ اہم سوال ہے جس کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں، اگر آرٹیکل 191 کو لیجسلیٹیو اینٹری 58 کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ مسلم لیگ ن کے وکیل صلاح الدین نے اسی کا حوالہ دے کر کہا کہ پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ رولز ختم بھی کر سکتی ہے، سپریم کورٹ کے پروسیجرز میں لفظ پریکٹس کا کیا مطلب ہے، جس پر فیصل صدیقی بولے؛ میری رائے صلاح الدین احمد سے مختلف ہے۔

فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ پارلیمنٹ پر 4 پابندیاں ہیں، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں کر سکتی، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرنے والی قانون سازی نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس اعجازالاحسن  بولے؛ ایکٹ سے پارلیمنٹ پر عائد تمام آئینی پابندیوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

فیصل صدیقی بولے؛ ہر پابندی کو ایکٹ کی شقوں کے ساتھ ملا کر بتاؤں گا کہ پارلیمنٹ نے کیسے خلاف ورزی نہیں کی، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو سپروائز کر سکتی ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن بولے؛ سپروائز کرنے کا مطلب تو سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا ہو گا۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے سپروائزری اختیار کی بھی حدود ہیں۔

فیصل صدیقی کا موقف تھا کہ پارلیمنٹ ایسے قوانین نہیں بنا سکتی جو سپریم کورٹ کو مفلوج کر دے، پارلیمنٹ کا کردار صرف سپروائزری ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے دریافت کیا کہ کیا سپروائزری کے لفظ میں کنٹرول کے مطلب بھی ہیں؟ فیصل صدیقی بولے؛ سپروائزری کا مطلب کہ پارلیمنٹ کے اختیارات محدود ہیں۔

فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت ازخود اختیارات مقدمات میں دیے جانے والے فیصلوں کے خلاف اپیل سن سکتی ہے، انہوں نے اس ضمن میں جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس حسن اظہر رضوی کے فیصلے پڑھ کر سنائے۔

اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ازراہ تفنن انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ججز کی بالکل مختلف آرا کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔

عدالتی استفسار پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ وہ اپنے دلائل مکمل کرنے میں مزید آدھا گھنٹہ لیں گے، جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سماعت میں وقفہ کر رہے ہیں سوا دو بجے دوبارہ سماعت کا آغاز کریں گے۔

وقفہ کے بعد سماعت

وقفہ کے بعد سماعت کے دوران ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا آئین میں اپیل کا حق دینے پر کوئی پابندی ہے یا نہیں، جسٹس مظاہر نقوی نے دریافت کیا کہ اٹارنی جنرل سے ایکٹ پر قانون سازی کا پارلیمنٹری ریکارڈ منگوایا گیا تھا، جس پر فیصل صدیقی بولے؛ ریکارڈ کے معاملے پر جواب اٹارنی جنرل ہی دے سکتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آئین میں لا کا لفظ 4 سو مرتبہ استعمال ہوا ہے، کیا آرٹیکل 191 میں لا کا مطلب قانون سازی کا اختیار دینا ہے اور باقی شقوں میں مختلف ہے، آئینی تشریح کے لیے کسی نا کسی اصول پر انحصار کرنا ہوتا ہے، آپ کس پر انحصار کر رہے ہیں۔

فیصل صدیقی بولے؛ عدالت کو اتنی تفصیل کے بجائے دیکھنا چاہئے کہ سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل ہو سکتی ہے یا نہیں، جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ اپیل تو آئین میں پہلے بھی دی گئی ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں پارلیمنٹ کو براہِ راست اختیار کہاں دیا گیا ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ٹوکا کہ ایک وقت پر ایک شخص بات کرے۔

فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے مگر رولز کی تشکیل کو قانون سے مشروط کیا گیا ہے، جسٹس منیب نے آئینی تاریخ کی بات کی تھی اس تناظر میں بات کروں گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن بولے؛ اپیل کا حق آئینی ترمیم سے ہی دیا جا سکتا ہے۔

جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر یہ اپیل غیر آئینی ہے تو لاریفارمز میں دی گئی اپیل بھی غیر آئینی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ وہ والا معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے، دو غلط مل کر ایک درست نہیں بنا دیتے۔

جسٹس مسرت ہلالی کے اہم ریمارکس

دوران سماعت ازخود نوٹس اختیار سے متعلق اہم ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آرٹیکل 191 کی لینگوئج ’سبجیکٹ ٹو لا‘ سے شروع ہوتی ہے، کیا ان الفاظ سے پروسیجر میں بہتری کی گنجائش چھوڑی گئی ہے، آرٹیکل 184/3 جب بھی استعمال ہوا ملک کی بنیادیں ہلا دیں۔

چیف جسٹس نے ایم کیو ایم کے وکیل سے دریافت کیا کہ سپریم کورٹ کا بینچ بھی رولز کا پابند ہے کہ نہیں، جس پر فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کا موقف تھا کہ ان کے خیال میں پابند ہے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ انتظامی طور پر بنائے گئے رولز عدالتی اختیار استعمال کرتے ہوئے بھی لاگو ہوں گے؟ کوئی بینچ بیٹھ کر رولز کو غیر آئینی کہہ سکتا ہے؟ کیا بینچ 1980 کے رولز سے متعلق آرڈر دے سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر پارلیمنٹ بھی نہیں کر سکتی بینچ بھی نہیں کر سکتا تو پھر سارا اختیار ایک شخص کے پاس رہ جاتا ہے، جس پر فیصل صدیقی بولے؛ رولز کی آئینی حیثیت پر بینچ آرڈر دے سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ایک مرتبہ پھر جسٹس منیب اختر کو ٹوک دیا

سوالات کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک مرتبہ پھر جسٹس منیب اختر کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ پہلے ان کے سوال کا جواب دیا جائے بعد میں دوسرے سوال پر آئیں، بولے؛ میں نہیں چاہتا میرے سوال کے ساتھ کچھ اور آئے، میں نے آج سب سے کم سوال پوچھے ہیں، ماسٹر آف روسٹر کو اتنا تو اختیار دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ چیف جسٹس صاحبان اپنا کام نہیں کرتے، اب جب قانون بن گیا ہے تو ہم کہتے ہیں ہم کسی کو جوابدہ نہیں ہیں،کئی کئی سال کیس نہیں لگتے اور ہم کہتے ہیں ہم نہیں لگاتے ہماری مرضی، ہم لوگ اپنا احتساب کیوں نہیں کرتے اور جب کوئی کرتا ہے تو ہمیں اعتراض ہو جاتا ہے۔

چیف جسٹس بولے؛ یہ قانون جو آیا ہے آپ کہتے ہیں کہ 99 فیصد خامیوں کو دور کرتا ہے۔ ایک فیصد صرف اپیل کا حق نہ ہونے کی وجہ سے اس میں خامی رہ گئی ہے۔ آپ صرف ایک فیصد پہ اٹک گیے 99 فیصد بہتری کو نہیں دیکھ رہے۔

جسٹس عائشہ ملک بولیں؛ اپیل کا حق کسی کو ملنا ہے اور کسی کو نہیں، جس کو اپیل کا حق نہیں ملے گا اسکا حق تو مجروح ہوگا، اپیل کا حق قانون میں بھی ہے اور شریعتِ میں بھی ہے۔ جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ اپیل کا حق اس وقت ہے جب ایک جج بینچ کی تشکیل کا فیصلہ کرتا ہے، جب تین ججز کی کمیٹی فیصلہ کرے گی تو پھر اپیل کا انحصار اس پر ہوگا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ماضی میں کب آخری فل کورٹ بینچ کب بیٹھا تھا، 21 ویں ترمیم کا آخری فیصلہ کیا گیا تھا اس کے خلاف تو اپیل نہیں آئی، جب یہ قانون آگے چلے گا تو پھر مستقبل کے معاملات سلجھیں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا مشکلات کے مدنظر آرٹیکل 191 کے تحت ہم رولز بنا سکتے ہیں، جسٹس شاہد وحید نے پوچھا کہ 191 کے تحت فل کورٹ میٹنگ کون بلائے گا، فیصل صدیقی بولے؛ فل کورٹ کی میٹنگ چیف جسٹس بلائیں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ فل کورٹ بلانے کا رولز میں تو کوئی ذکر نہیں، فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ ایک پریکٹس ہے، اس موقع پر چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لائٹر نوٹ کے طور پر پوچھ رہا ہوں آپکو کتنی فیس ملی ہے، فیصل صدیقی بولے؛ اس کا جواب دے کر میں خود کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کبھی کوئی ایسی ٹیم دیکھی جس کے 3 کپتان ہوں وہ جیتی بھی ہو، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ اسپورٹس سے میرا بھی تعلق ہے کپتان اور وائس کپتان ضرور ہوتے ہیں۔ انہی کے استفسار پر فیصل صدیقی بولے؛ بالکل میرے نزدیک پارلیمنٹ کا اختیار ہے تاہم پارلیمنٹ ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو رولز اورعدلیہ کی آزادی کے خلاف ہو۔

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کوئی میرے سوال سے اتفاق نہ کرے، کسی کو اپیل کا حق ملے گا کسی کو نہیں ملے گا، اپیل کا حق ملنے سے دوبارہ قوانین بنیں گے، پارلیمنٹ نے کہا ہے اپیل ہونی چاہیے، جس کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ کے ہر حکم کی اپیل ہونی چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ اگر لارجر بینچ ہے تو اپیل نہیں ہو گی، جسٹس شاہد وحید کا موقف تھا کہ اگر سنگل جج کیس سنے تو اپیل ہوتی ہے، ہائیکورٹس میں بھی ڈویژن بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں ہوتی۔

عدالتی استفسار پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اس فل کورٹ سے قبل شاید 2015 میں فل کورٹ ہوئی تھی، چیف جسٹس بولے؛ 21 آئینی ترمیم کے بعد کبھی فل کورٹ نہیں بیٹھی، ہو سکتا ہے کبھی فل کورٹ نہ بیٹھے، مستقبل میں جب بات آئے گی تو ہم بھی سمجھیں گے۔

جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ فل کورٹ میں بیٹھیں گے تو کوئی اپیل کا حق نہیں ہو گا، فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں فل کورٹ میں شاید اپیل کا حق نہیں مانگا جائے گا، جسٹس جمال مندوخیل کا موقف تھا کہ اپیل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ لارجر بینچ اپیل سنے گا، جسٹس مظاہر نقوی بولے؛ لارجر بینچ کی تعداد نہیں بتائی گئی اپیل دی جا سکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ موجودہ قانون 25 اپریل کو بنایا گیا، ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز قانون مئی میں بنایا گیا، دونوں قوانین میں قدرے مشترک ہیں، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کیس کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی دائر ہوئی یا نہیں۔

پاکستان بار کونسل کے دلائل

ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ایڈووکیٹ ہارون الرشید نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے فل کورٹ کے لیے درخواست دی تھی، جس پر چیف جسٹس بولے؛ میں نے آپکی درخواست پڑھے بغیر فل کورٹ بنا دی۔

عدالتی استفسار پر وائس چیئرمین پاکستان بار نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس قانون کو درست تسلیم کرتے ہیں، چیف جسٹس کی جانب سے وکلا کے درمیان تقسیم کے سوال پر جسٹس اعجاز الاحسن بولے؛ اس کا سادہ جواب ہے کہ ذہین لوگ اختلاف رکھتے ہیں۔

ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ پہلے مشورے نہیں ہوتے تھے، جس کی وجہ سے ہم نے نقصان اٹھایا، آرمی چیف کو صدر اور آرمی چیف بننے کا اختیار بھی دیا جاتا ہے، آئین میں جو اختیار نہیں وہ بھی دے دیا گیا ہے۔ وائس چیرمین پاکستان بار کونسل نے ایم کیو ایم کے وکیل کے دلائل اپناتے ہوئے دلائل مکمل کرلیے۔

کیس کی سماعت کل تک ملتوی

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں دلائل کے لیے ایک گھنٹے کا وقت کافی ہو گا، جس پر جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ آپ سوالوں کی بمبارمنٹ سے نہیں بچ سکتے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 11  بجے تک ملتوی کردی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر میں ترمیم کر کے بینچز کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے بجائے سینئر ترین ججز پر مشتمل 3 رکنی کمیٹی کو دے دیا ہے جبکہ آرٹیکل 184/3 کے تحت مقدمات کا فیصلہ کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔

سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ نے بل کے خلاف حکم امتناع جاری کر رکھا ہے۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیخلاف درخواستوں پر سماعت پی ٹی وی براہ راست دکھارہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب عدالتِ عظمٰی کی کارروائی براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

گزشتہ سماعت پر مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن کی وکلا نے دلائل مکمل کر لیے تھے جبکہ جماعت اسلامی کے وکیل نے قانون کی حمایت کردی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے نوٹس کے باوجود عدالت میں دلائل نہیں دیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp