وی ایکسکلوسیو: اسرائیل صرف کاغذی شیر، اس کا سپر پاور والا امیج تباہ ہوگیا، فلسطینی نائب سفیر نادر کے الترک

بدھ 11 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں فلسطین کے نائب سفیر نادر کے الترک نے فلسطین اور اسرائیل میں ہونے والی جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ جنگ سے اسرائیل کا خطے میں بطور سپر پاور امیج تباہ ہو گیا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ سارے مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن ایک چھوٹے گروہ نے  ثابت کردیا کہ اسرائیل صرف کاغذی شیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینی مجاہدینِ آزادی نے گزشتہ ہفتے کی صبح اسرائیل میں پیش قدمی شروع کی جو کہ فلسطینی عام شہریوں کے خلاف اسرائیل کی مجرمانہ کارروائیوں کا ردعمل تھا اور چونکہ اسرائیلی روزانہ مسجد اقصٰی اور قبلہ اول پر حملہ کرتے ہیں اس لیے اس فوجی کارروائی کو ’الاقصٰی فلڈ‘ کا نام دیا گیا۔

’فلسطینی مسجد اقصٰی کا پہلا دفاعی حصار ہیں‘

نادر کے الترک نے کہا کہ صیہونی آباد کار اور سیاسی زعما روزانہ تشدد اور مشکلات پیدا کرنے کے لیے مسجد اقصٰی آتے ہیں اور اسرائیلیوں کا منصوبہ ہے کہ وہ مسجد اقصٰی کو ایک یہودی عبادت گاہ میں بدل دیں جو کہ صرف یہودیوں کے لیے مختص ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل صیہونیوں نے سنہ 1994 میں ہیبرون میں الحرم ابراہیمی یا ابراہیمی مسجد کا 70 فیصد حصہ اپنے کنٹرول میں لے کر اسے یہودی عبادت گاہ بنا دیا تھا اور اب یہی چیز وہ الاقصٰی مسجد کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ بطور فلسطینی ہم مسجد اقصٰی کے پہلے دفاعی حصار کے طور پر اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ ہم نے مسجد اقصٰی کی حفاظت کے لیے اسرائیل کے تفریق پر مبنی نظام کے اندر رہتے ہوئے بہت سی جنگیں لڑی ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ جنگ جلد پر امن طریقے سے ختم ہو جائے گی اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کا مسجد اقصٰی کو یہودی عبادت گاہ بنانے کا منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔

’اسرائیل صرف کاغذی شیر ہے، اس کا سپر پاور والا امیج تباہ ہو گیا‘

فلسطینی نائب سفیر نے کہا کہ جنگ سے اسرائیل کا خطے میں بطور سپر پاور امیج تباہ ہو گیا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ سارے مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن ان کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا گروہ جس کے پاس اس طرح کے جدید ہتھیار بھی نہیں ہیں انہوں نے اسرائیل فوج کے اعلیٰ عہدیداران سمیت 900 یہودی آباد کاروں کو مار گرایا ہے اور تقریباً 2600 صیہونی آباد کار اس حملے میں زخمی ہوئے ہیں جس سے ثابت ہو گیا ہے کہ اسرائیل صرف کاغذی شیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ جنگ میں انسانی جانوں کا ضیاع بین الاقوامی برادری کی جانب سے اسرائیل کی اندھا دھند حمایت کا نتیجہ ہے۔

نادر کے الترک نے کہا کہ ہم فلسطینی انسانیت کی قدر کرتے ہیں لیکن انسانی جانوں کا یہ نقصان اسرائیلی حکومت کی انتہا پسندانہ سوچ، فلسطینیوں کے خلاف انسانیت سوز جرائم،  2 ریاستی فارمولے کو تسلیم نہ کرنے اور امریکا سمیت مغربی  ممالک اور بین الاقوامی سوسائٹی کی جانب سے اسرائیل کی اندھا دھند حمایت کا نتیجہ ہے جو اسرائیل میں فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے استعمال، قبضے یہودی آباد کاری اور فلسطینیوں کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں کی اندھا دھند حمایت کرتے ہیں اور یہ تشدد اور خونریزی ان ہی باتوں کا نتیجہ ہے۔

’فلسطینیوں کا جانی نقصان مسجد اقصیٰ کے دفاع کی قیمت ہے‘

 ان کا کہنا تھا کہ وہ فلسطینیوں کے جانی نقصان پر بہت افسردہ ہیں لیکن یہ آزادی اور مسجد اقصٰی کے دفاع کی قیمت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم ان قربانیوں سے آزادی حاصل کر پاتے ہیں تو یہ قیمت کچھ بھی نہیں۔ ہم فلسطینی صرف اللہ کے غلام ہیں کسی اور کے غلام نہیں۔ اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ وہ اس سرزمین کے مختار بن گئے ہیں لیکن صرف اللہ ہی مالک و مختار ہے اور ہم انسان زمین پر اس کے نائب ہیں۔ عمارتیں، اسکول، اسپتال، انفراسٹرکچر سب بن جاتا ہے لیکن انسانی جان کا ضیاع ایک مستقل نقصان ہے۔

’اسرائیلی اس وقت صرف سویلینز پر حملے کر رہے ہیں‘

فلسطینی نائب سفیر نے بتایا کہ اس وقت اسرائیلی صرف فلسطینی سویلینز پر حملے کر رہے ہیں۔ وہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر حملہ کرتے ہیں، شہری آبادیوں اور اسپتالوں پر حملے کرتے ہیں۔ انتقام کے لیے اسرائیلی غزہ میں ہر چیز کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس دفعہ ان کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے اور وہ فلسطینیوں کا زیادہ سے زیادہ نقصان کرنا چاہ رہے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ جرائم کر کے اپنے لوگوں کے سامنے سورما بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’گزشتہ ہفتے اسرائیلی بہت بڑی ناکامی سے دوچار ہوئے‘

نادر کے الترک نے کہا کہ اسرائیلی بطور ایک بہت بڑی فوجی طاقت کے طور پہ ناکام ہوئے اور ان کا جاسوسی کا نظام بھی تباہ ہو گیا۔ ان کی ٹیکنالوجی بھی ناکام ہو گئی کیونکہ غزہ کے گرد ان کا جو حصار ہے اس کو کوئی چھونے کی کوشش بھی کرتا ہے تو الارم بج اٹھتے ہیں وہ ہر اس چیز میں ناکامی کا شکار ہوئے جس پر انہیں فخر تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال سے اسرائیل کا امیج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تباہ ہو گیا ہے اور اب دنیا میں اسرائیل کے اس امیج کی ناکامی کے بعد ہم آزادی کے منتظر ہیں۔

کیا اس آپریشن میں حماس کو روس، ایران، اردن اور ترکی کی حمایت حاصل تھی؟

نادر کے الترک نے کہا کہ اس آپریشن میں حماس کے ساتھ ساتھ جہاد اسلامی، الفتح کے مجاہدین اور ہمارے سماجی گروپس شامل تھے جس کا مطلب ہے کہ اس آپریشن میں صرف ہمارے اپنے مجاہدین شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ روس ایک طویل عرصے سے فلسطینیوں کی حمایت کرتا چلا آ رہا ہے ہمارے روس کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور سنہ 1970 سے قبل ہمارے مجاہدین آزادی روس سے ٹریننگ حاصل کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یاسر عرفات کے روس کے تاریخی دورے کے بعد روس اور فلسطین کے تعلقات بہت بہتر ہوئے۔ روس ہمیں سفارتی محاذ پر مدد دے رہا ہے لیکن گراؤنڈ پر صرف فلسطینی مجاہدینِ آزادی ہی لڑ رہے ہیں۔ میدان جنگ میں کوئی روسی، حزب اللہ، ایرانی، عرب یا کوئی اور نہیں بلکہ فلسطینی ہی برسرپیکار ہیں اور صرف فلسطینی ہی اس وقت اسرائیل کے مظالم کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خطے میں امن کا حل صرف 2 ریاستی فارمولا ہے جس سے اسرائیلی انکار کر رہا ہے لیکن ایسا سنہ 1947 میں اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 181 میں کہا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے 56 فیصد علاقے پر اسرائیل، 43 فیصد علاقے پر فلسطین اور ایک فیصد علاقے پر بین الاقوامی اقوام متحدہ کا کنٹرول ہو گا جو کہ یروشلم کا شہر ہے۔ اسرائیل کو اقوام متحدہ کی قراداد نمبر 273 کے مطابق ایک ریاست بننا تھا اور اس کے ساتھ اقوام متحدہ کے رکن بننے کے لیے اسے قرارداد نمبر 194 پر بھی عمل کرنا تھا۔ لیکن اسرائیل نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی 800 سے ایک ہزار اور سلامتی کونسل کی 85 فیصد قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے جو فلسطین کے حق میں تھیں۔

’بین الاقوامی برادری کی خاموشی افسوسناک ہے‘

فلسطینی نائب سفیر نے کہا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کی خاموشی اور ان کے دوہرے معیارات اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ اسرائیلی قانون سے بالاتر ہیں۔ قوانین امن استحکام اور ملکوں کے ساتھ برابری کی سطح پر سلوک کے لیے بنائے جاتے ہیں لیکن اسرائیلی کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر امریکا سمیت مغربی ممالک کی خاموشی اور دوہرے معیارات سے امن استحکام کو نقصان پہنچا ہے۔

’قائد اعظم ہمارے بہت بڑے حمایتی تھے‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان لوگوں، پاکستانی سیاسی جماعتوں، پاکستان قیادت کی فلسطینی کاز کے لئے فراخدلانہ حمایت پر ان کا مشکور ہیں جو فلسطین کے بارے ہمیشہ قائد اعظم کے وژن کو نظر میں رکھتے ہیں۔ قائد اعظم ہمارے بہت برے حمایتی تھے اور ان کے بعد آنے والے قائدین نے بھی ان کے وژن کو برقرار رکھا جس کے ہم تہہ دل سے مشکور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو اگر تمام ممالک بھی تسلیم کر لیں تو اس سے خطے میں امن استحکام نہیں آئے گا تاوقتیکہ وہ فلسطینی قیادت سے بات نہیں کرتے۔ امن کے لیے اسرائیلیوں کو 2 ریاستی حل کو تسلیم کر کے قبضے کو ختم کرنا ہوگا۔ اسرائیل سے بے دخل کیے گئے فلسطینیوں کو ان کی زمینوں پر واپسی کے عمل کو قبول کرنا ہو گا اور ان اقدامات کے علاوہ امن نہیں ہوگا۔

اس جنگ کا خاتمہ کیسے ہوگا اور کیا نتائج ہوں گے؟

فلسطینی سفیر نے کہا کہ میں بہت پر امید ہوں، ہم نے اس جنگ میں ہمیشہ کی طرح بہت بڑی قیمت ادا کی ہے لیکن اس دفعہ فرق یہ ہے کہ اسرائیلی بھی ہماری طرح سے نقصان اٹھا رہے ہیں جب ان کے 900 فوجی مارے جا چکے ہیں۔ اب تک 4000 فلسطینی زخمی ہیں جبکہ 3000 اسرائیلی بھی زخمی ہیں۔ شاید پہلی بار ایسا ہے کہ دونوں طرف  نقصان کے اعداد و شمار ایک جیسے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم دشمن کی ان ہلاکتوں پر خوش نہیں ہیں اور دنیا کے لیے ہمارا پیغام امن اور استحکام ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp