ہوشیار! پاکستانی اپنے اکاؤنٹ میں موجود رقم کو کس طرح محفوظ بناسکتے ہیں؟

بدھ 11 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نیٹ فلکس پر بھارتی ڈرامہ سیریز جام تارا تو دیکھا ہوگا؟ اگر نہیں دیکھا تو آج آپ کو اس کی کہانی سناتے ہیں لیکن پاکستانی ورژن میں اور وہ بھی حقیقی کہانی۔

ٹیکنالوجی کے اس دور میں بہت کچھ آسان ہو گیا ہے اب کوئی چاہے تو اس آسانی کا مثبت استعمال کرے یا منفی، آسانی دونوں صورتوں میں ہے۔

جیسا کہ تذکرہ ہوا جام تارا کا تو اس کی حقیقی کہانی پاکستان میں بھی جنم لے رہی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ڈرامہ تھا اور یہاں لوگ واقعی میں لٹ رہے ہیں، ڈرامے میں لوٹنے والے مارے جاتے ہیں مگر یہاں ابھی تک ان لٹیروں کا کوئی سراغ نہیں۔

کراچی کے ایک بینک صارف کو پی ٹی سی ایل کے نمبر سے کم و بیش 9 بار مسلسل کال کی جاتی رہی، دسویں بار یونائٹڈ بینک لمیٹڈ کے صارف نے کال وصول کی کیوں کہ نمبر ہو بہو اسی بینک کے نمبر جیسا تھا، آگے سے مبینہ طور پر نجی بینک کے ہیڈ آفس کے منیجر نے بات کا آغاز کیا اور کہا کہ سال کے اختتام پر اکاونٹس اپگریڈیشن کی جا رہی ہے اور اگر آپ اس عمل کا حصہ نا بنے تو آپ کا اکاونٹ بلاک ہو جائے گا۔

نجی بینک صارف نے اپنی تسلی کے لیے مبینہ بینک منیجر سے کہا کہ آپ پر یقین کیسے کیا جائے؟ جس پر ریسیور سے کہا گیا کہ ہمارے پاس آپ کا قومی شناختی کارڈ نمبر، اے ٹی ایم کارڈ نمبر، جس برانچ میں اکاونٹ ہے اس برانچ کا نام سمیت تمام معلومات موجود ہیں، اس کے بعد صارف کا مزید اعتماد حاصل کرنے کے لیے انہیں تمام معلومات بتا دی گئیں۔

صارف کو اعتماد میں لینے کے بعد ایک اور پی ٹی سی ایل نمبر سے واٹس پر لنک بھیجا گیا اور صارف کو کہا گیا کہ آپ اس لنک کو کھول کر اپنا یوزر نیم اور پاسورڈ ڈال دیں جو آپ کے ڈیجیٹل اکاونٹ کا ہے۔

صارف نے وی نیوز کو بتایا کہ اس کے بعد یکے بعد دیگرے 2 او پی ٹی ان کے موبائل فون پر آئے، اسی نمبر سے جس سے تنخواہ آنے کی صورت میں پیغام موصول ہوتا ہے، چند منٹوں میں یونائیٹڈ بینک کا ایک صارف اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

جس کے بعد صارف کے مطابق ایک اور پی ٹی سی ایل نمبر سے کال آئی اور ایک خاتون نے مخاطب ہو کر کہا کہ میں یو بی ایل سے بات کر رہی ہوں کیا آپ نے ابھی اتنی بڑی رقم کی ٹرانزیکشن کی ہے جس پر بینک صارف نے کہا کہ میں نے تو کوئی ٹرانزیکشن نہیں کی اور اگر آپ یوبی ایل سے ہیں تو وہ کون ہیں؟ ان چند منٹوں میں صارف نا صرف اپنی محفوظ رقم سے محروم ہوچکا تھا بلکہ اب اسے آگے کی بھی کوئی امید نہیں۔

اگر آپ کے ساتھ ایسا ہو تو کیا کرنا چاہیے؟

اول تو بینک کی یا کوئی بھی نجی معلومات کسی کو بھی فراہم نہیں کرنی چاہیے لیکن پھر بھی خدانخواستہ ایسا معاملہ ہوتا ہے تو اسٹیٹ بینک کے مطابق آپ نے پہلے تو اپنے متعلقہ بینک سے رجوع کرکے ڈیجیٹل اکاؤنٹ اور اے ٹی ایم کو بلاک کرنا ہے، اس کے بعد ایف آئی اے سے رجوع کرنا ہے۔

ایف آئی اے سائبر سیل میں درخواست کیسے جمع کرانی ہے؟

ویسے تو ایف آئی نے آن لائن شکایت کے اندراج کا آپشن دیا ہے لیکن اگر آپ خود ایف آئی اے کے دفتر چلے جائیں تو کام جلدی سے ہوگا، ایف آئی اے کے دفتر جاتے ہوئے ایک درخواست جس پر وہ سب لکھا ہو جو آپ کے ساتھ بیتا ہے، اس کے علاوہ لوٹنے والے کے ساتھ آپ کی ہونے والی کمیونیکیشن یا ریکارڈ کا اسکرین شارٹ لے کر پرنٹ نکال کرآپ اس درخواست کے ساتھ اپنے شناختی کارڈ کی نقل کے ہمراہ منسلک کریں اور ایف آئی اے میں جمع کرا دیں۔

ایف آئی اے میں شکایت کیوں ضروری ہے؟

ایف آئی اے میں شکایت کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ کی رقم کا اداروں کو اندازہ ہو جائے گا کہ نکالی جا چکی ہے، دوسرا یہ کہ اگر ریکوری ہو جائے تو آپ تک رقم پہنچائی جا سکے اور تیسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اگر ایف آئے اے نے کارروائی کی تو دوسرے لوگ اس فراڈ سے بچ سکیں گے۔

اسٹیٹ بینک اس فراڈ کے بارے میں کیا کہتا ہے؟

اسٹیٹ بینک کے ذرائع نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ہمارے پاس اس طرح کا ڈیٹا بریچ کی کبھی شکایت موصول نہیں ہوئی، ایسی صورت میں سب سے پہلے تو متعلقہ بینک سے پوچھا جائے کہ صارف کا ڈیٹا باہر گیا ہی کیوں؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ تفتیش کرنا ایف آئی اے کا کام ہے اور ہم بنا ثبوت کے کسی بینک کا نام بھی نہیں لے سکتے اور احکامات بھی نہیں دے سکتے۔

ایف آئی اے کا مؤقف کیا ہے؟

ایف آئی اے کے ذرائع نے بھی نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ یہ او پی ٹی فراڈ ہے، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی نا کسی طرح اس کی بنیاد تک پہنچا جائے لیکن اصل مسلئہ معلومات کا لیک ہونا ہے اور یہ بینک کا ہی کوئی ملازم کر سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp