آخر مرد و خواتین کو اپنی ناک سے مسئلہ کیا ہے؟

بدھ 11 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کہیں آپ کے دوست آپ کو بھی ’پکوڑا ناک‘ کہہ کر تو نہیں چڑاتے؟ یہ وہ جملہ ہے جو تقریباً ہر تیسرے بندے کو سننے کو ملتا ہے۔ اور پاکستان میں یہ جملہ بہت معمولی باتوں اور بطور مزاح بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہر شخص کے خدوخال مختلف ہوتے ہیں لیکن ناک کے حوالے سے برصغیر میں ہمیشہ سے ہی ایک بحث رہی ہے۔

کہا جاتا ہے پرانے وقتوں میں جب خواتین رشتہ دیکھنے جایا کرتی تھیں تو لڑکی کی تیکھی ناک ان کی پسند میں ہمیشہ سر فہرست ہوتی تھی۔ اب زمانہ تو بدل گیا ہے لیکن ناک کے حوالے سے بہت سے خدشات اب بھی ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق ہر گھنٹے 94 افراد پرفیکٹ ناک کا خواب دیکھتے ہیں۔ جبکہ ناک کی سرجری دنیا میں پانچویں مشہور کاسمیٹیک سرجری ہے، اور ہر سال 8 لاکھ 30 ہزار لوگ ناک کی سرجری کرواتے ہیں۔

پاکستانی فنکار جنہوں نے ناک کی سرجری کروائی؟

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ناک کی سرجری ہر عام و خاص شخص کی توجہ کا مرکز بن رہی ہے۔ خاص طور پر پاکستانی انڈسٹری کے زیادہ تر فنکاروں نے خوبصورت دکھنے کے لیے ناک کی سرجریز کروا رکھی ہیں۔ فواد خان، مائرہ خان، غنا علی، عائشہ خان، حدیقہ کیانی، ہمائمہ ملک، منشا پاشہ سمیت دیگر شامل ہیں۔

ان میں سے کافی فنکار اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ انہیں اپنی ناک پسند نہ ہونے کی وجہ سے ناک کی سرجری کروانا پڑی۔ جبکہ پاکستانی اداکار زاہد خان کا سرجری کے بعد کافی مایوس کن رد عمل تھا، کیونکہ ان کی ناک کی سرجری خراب ہو گئی تھی جس کی بنا پر انہیں بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر لوگ ناک کے بارے میں کیوں اتنے حساس ہوتے ہیں اور سرجری کو ترجیح دیتے ہیں؟

ہمارے معاشرے میں خوبصورتی کے کچھ معیار بنا دیے گئے ہیں۔ اور یہ معیارات ہر زمانے میں رہے ہیں۔ ہمارے شعرا کی غزلیں پڑھ لی جائیں تو ہر جملے میں حسن کو بہت باریکی سے ایک سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔ اور حسن کو صرف موٹی آنکھوں، تیکھی ناک، لمبے سلکی بال، دبلا پن، گلابی ہونٹ وغیرہ سمجھا گیا ہے۔ یہ وہ سب تمام الفاظ ہیں جنہیں آپ ہر رمانوی غزل میں ضرور پائیں گے۔

اب ٹی وی اور میڈیا کے دور کی بات کی جائے تو تو میک اپ کے ذریعے خواتین اور مردوں کی خوبصورتی کے معیارات کو تصویری شکل میں دکھایا جاتا ہے۔ جب کے ان خوبصورت تصویری چہروں کے پیچھے میک اپ، لائٹس اور ایچ ڈی کیمرے ہوتے ہیں۔ جو ان کو دنیاوی خوبصورتی کے سانچوں میں ڈھالتے ہیں۔

یہ وہ تمام چیزیں ہیں جنہوں نے ہمارے معاشرے میں خوبصورتی کے معیارات کو نا صرف بنایا بلکہ پختہ کیا ہے اور اب معاشرے کے ہر فرد کے ذہن میں خوبصورت ہونے کی دلیل بھی یہی ہے۔

اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے سینئر سائکولوجسٹ ڈاکٹر عاصمہ خان کہتی ہیں کہ ناک کی بات کی جائے تو ناک کے بارے میں لوگ حساس تب ہونا شروع ہوتے ہیں جب ان کے گرد لوگ انہیں اس بات کا احساس دلانے لگتے ہیں کہ تمہاری ناک میں کچھ خرابی ہے۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے کسی کی توہین کو مزاق سمجھا جاتا ہے۔ اور اپنی ذات سے متعلق کچھ بھی غلط سنو تو بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن اس بات کا احساس شخص کو نہیں ہوتا جو کہہ رہا ہوتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک وہ محض ایک مزاق ہی ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تب ایک مسئلہ بنتا ہے جب کچی عمر سے کسی بچے کو یہ سبب سننا پڑے تو وہ چڑنا شروع ہوجاتا ہے اور احساس کمتری میں چلا جاتا ہے اور بعض اوقات اس کی احساس کمتری اسے ڈپریشن تک لے جاتی ہے کیونکہ اس کی سمجھ سے بالا ہے کہ وہ کس طرح اس کا مقابلہ کرے۔ اور اگر کوئی انہیں نارمل انداز میں بھی دیکھ رہا تو انہیں لگتا ہے کہ ان کی ناک کو دیکھا جا رہا ہے۔ اتنی ساری چیزوں کا سامنا کرتے ہوئے وہ بس یہ چاہتے ہیں کسی طرح وہ اپنی ناک کو بہت خوبصورت بنا لیں۔

انہوں نے کہا کہ اب تو خیر سے کاسمیٹیک سرجریز آچکی ہیں اور ہر دوسرا کلینک اس کام کو سر انجام دے رہا ہے جو کہ بہت زیادہ خطرناک ہے۔ لیکن لوگ دماغی طور پر اتنا تھک چکے ہوتے ہیں کہ انہیں فرق نہیں پڑتا اور بس وہ اندھا دھند ناک بہتر بنوانے کے چکر میں چلے جاتے ہیں۔ جس کے بہت بھیانک نتائج بھی اکثر لوگ بھگتتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کے اس کا حل صرف یہی ہے کہ اپنی ذات کو قبول کیا جائے اور دوسروں کی باتوں کو نظر انداز کیا جائے اور شکر کیا جائے۔

مجھے سب میرے ناک کی وجہ سے زہرا بووا کہہ کر مذاق بناتے تھے

35 سالہ شمیم 3 بچوں کی ماں ہیں جنہوں نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے ہوش سنبھالا تو ان کے اردگرد سب ان کو زہرا بووا کی کاپی کہہ کہ پکارتے تھے، جو انہیں ان کا مذاق اڑاتے ہوئے محسوس ہوتا تھا۔ جب وہ گاؤں گئیں اور زہرا بووا کو پہلی بار دیکھا تو پتہ چلا کہ ان کی بہت موٹی ناک تھی اور اسی وجہ سے لوگ ان کو زہرا بووا کے نام سے پکارتے تھے۔ بہن بھائی مذاق میں اور امی جب ان پر غصہ ہوتی تھیں تو وہ انہیں زہرا بووا سے صرف اس لیے تشبیہ دیتی تھیں کہ ان کی ناک ان جیسی تھی۔

مزید بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ اپنی ناک کو لے کر ہمیشہ ہی احساس کمتری کا شکار رہی ہیں اور طرح طرح کے ٹوٹکے ڈھونڈتی رہی ہیں کیونکہ اس وقت سرجریز کا رواج نہیں تھا۔ اور ایک دن اردو کے رسالے میں انہوں نے ایک ٹوٹکا دیکھا کہ صبح اور رات سونے سے پہلے 10 بار اپنی ناک کو دبا کر رکھا جائے تو ناک ستواں ہو جاتی ہے۔ انہوں نے بہت وقت یہ ٹوٹکا بلا ناغہ کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ناک بہت بہت بہتر بھی ہو گئی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ سب کو روک سکیں اور انہیں زہرا بووا کے نام سے نہ چڑائیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں نا جانے لوگ تیکھی ناک کو ہی خوبصورت سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ بھی تو ہیں جو سونگھنے کی حس سے قاصر ہوتے ہیں۔

میں کسی سے بات کرتے ہوئے ناک پر ہاتھ رکھ لیتی تھی

25 سالہ ماہجبین عابد صحافی ہیں اور ان کا تعلق ملتان سے ہے انہوں نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ انہیں ان کی ناک ہمیشہ اپنے چہرے سے الگ لگتی تھی۔

’میرا چہرہ پتلا ہے، اس حساب سے ہمیشہ مجھے بتایا گیا کہ تمہاری ناک لمبی ہے۔ خاندان میں مشہور ہو گیا کہ اس کی طوطے جیسی ناک ہے۔ یہ سب بچپن کے دنوں کی باتیں ہیں۔‘

ماہجبین کہتی ہیں کہ اسکول کے دور میں جب کوئی دوست آمنے سامنے کھڑے ہو کر بات کرتی تو ہمیشہ ان کی ناک نوٹ کرکے کہتی کہ تمہاری ناک کتنی عجیب سی ہے۔  یہ سب چلتا رہا اور ان کے ذہن میں ان تمام جملوں نے گھر کر لیا۔ پھر کوئی کسی کام سے ان کے پاس بیٹھتا، تو انہوں نے نظریں ملانا بند کر دیا۔ اور اپنے ناک پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا شروع کر دیا۔

انہوں نے بتایا کہ جب میڈیا کی فیلڈ میں قدم رکھا، پہلا آڈیشن دیا، تو پروڈیوسر نے پی سی آر میں بلا کر تمام لوگوں کے سامنے کہا کہ تمہارا ناک ٹیڑھا ہے، تم ناک کی سرجری کا کیوں نہیں سوچتی؟

’اس دن کے بعد سے یہ عالم ہو گیا کہ میں نے اپنی تصاویر لینا یا بنوانا ہی چھوڑ دی۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سوچنے کے بعد ان کو اس بات کی سمجھ آگئی کہ مسئلہ ان کی ناک میں نہیں بلکہ لوگوں کی سوچ میں ہے۔ کیونکہ لوگ کسی بھی حال میں کیڑے نکالنا بند نہیں کرتے۔ اب وہ روزانہ کی بنیاد پر کیمرہ فیس کرتی ہیں، اپنی سائیڈ پروفائل تصاویر بھی لیتی ہیں اور یہ نہیں سمجھتی کہ ان کی ناک کو کسی قسم کی سرجری کی ضرورت ہے۔

ڈرماٹولجسٹ ڈاکٹر شہر بانو نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ناک کی سرجری بہت معمولی بات ہوتی جا رہی ہے۔ ہر تیسرا بندہ یا بندی ناک کی سرجری کا خواہشمند ہے۔ لیکن اگر یہ سرجری ٹھیک طرح سے نہ ہو، یا اس میں ذرا سی بھی کوتاہی ہو جائے تو مسائل کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے اور ان مسائل میں ناک کی شکل بگڑ جانا بہت عام ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس حد تک بگڑ سکتا ہے کہ جس سے سانس لینا بھی متاثر ہو سکتا ہے، خراب سرجری انفیکشن کا باعث بن سکتی ہے اس صورت میں درد اور سوجن ہو جاتی ہے اور اس کی تکلیف نا قابل برداشت حد تک بھی بڑھ سکتی ہے۔ اور انوسمیا یا ہائپو سمیا کا بھی نشانہ بن سکتے ہیں جس میں سونگھنے کہ حس کافی حد تک متاثر ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان خطرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس طرح کی حساس سرجریز کے لیے ہمیشہ تجربہ کار سرجن سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ کسی بھی قسم کی کوتاہی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp