وی ایکسکلوسیو: مغل بادشاہ نہیں جو شاہی فرمان کے ذریعے عمران خان کو رہا کرنے کا حکم دے دوں، نگراں وزیراعظم

جمعرات 12 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ان کی الیکشن کمیشن آف پاکستان سے جتنی ملاقاتیں ہوئی ہیں ان کے مطابق انتخابات کی تیاریاں مکمل ہیں اور انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے لیکن انتخابات میں سیکیورٹی کے حوالے سے ہمارے خدشات ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔

وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان جنوری میں انتخابات کے حوالے سے اپنے انتظامات کافی حد تک مکمل کر چکا ہے جن میں حلقہ بندیوں سمیت دیگر معاملات پر کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو درکار فنڈز پر بھی غور و خوض کیا جا چکا ہے اور وزارت خزانہ سے اس پر بات چیت چل رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیکیورٹی اور پولنگ بوتھ کے حوالے سے بھی انتظامات حتمی مراحل میں ہیں اور انہیں کوئی شبہ نہیں کہ جس تاریخ کا بھی اعلان کیا جائے گا اس پر انتخابات ہو جائیں گے۔

سیکیورٹی معاملات کے حوالے سے تحفظات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میری دعا اور کوشش ہے کہ انتخابات کے دوران دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہ ہو جس کے لیے حکومت، الیکشن کمیشن اور سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر انتظامات کر رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہم دہشت گردوں کا مسلسل پیچھا کرتے رہیں تاکہ وہ کوئی ایسی منصوبہ بندی نہ کر پائیں۔

’میں قطعاً آئین کے خلاف نہیں ہوں‘

اس سوال کے جواب میں کہ آپ نے گزشتہ روز کہا کہ دنیا میں بہت ساری ریاستیں آئین کے بغیر کام کر رہی ہیں تو کیا آپ آئین کے خلاف ہیں؟ وزیراعظم کاکڑ نے کہا کہ وہ قطعا آئین کے خلاف نہیں بلکہ وہ ایک علمی پیرائے میں گفتگو ہو رہی تھی کہ بعض ممالک میں باضابطہ قوانین ہیں اور بعض میں اس طرح سے باضابطہ اور مربوط قوانین نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بسا اوقات ایسا تاثر ابھرتا ہے کہ شاید آئین کی کم اہمیت یا کم مائیگی کی طرف اشارہ ہے لیکن میں تو ایک بحث کو بڑھاوا دینا چاہ رہا تھا کیونکہ بسا اوقات گورننس سے متعلق جو ہمارے چیلینجز ہیں ان کو ہم بڑے سادہ انداز میں کسی ایک چیز سے جوڑ دیتے ہیں لیکن میرا مطمح نظر یہ تھا کہ جو ہمارے معاشی سماجی یا سیاسی چیلینجز ہیں ان کو کسی مخصوص انداز سے دیکھنے کی بجائے کھلے ذہن کے ساتھ دیکھا جائے۔

’ووٹنگ کی شرح میں کمی باعث تشویش ہونا چاہیے‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ مولانا فضل الرحمان کہہ رہے ہیں کہ سردیوں میں برف باری کی وجہ سے ووٹنگ کی شرح کم ہو سکتی ہے تو وزیراعظم نے کہا کہ ووٹنگ کی شرح کم نہیں ہونی چاہیے کیونکہ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہوں۔

انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ووٹنگ کی شرح اگر کم ہو تو یہ تشویش ناک ضرور ہے لیکن اگر اس بنیاد پر انتخابات کی تاریخ مقرر کی جائے تو میرے خیال سے درست نہیں کیونکہ انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے پہلے سے سوچ بچار کی جاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موسم ایک عامل ضرور ہوتا ہے لیکن ملک کے زیادہ آبادی والے خطوں سندھ اور پنجاب میں موسم کے اثرات اس نوعیت کے نہیں ہوتے ہاں البتہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں موسم کے تھوڑے اثرات ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ مولانا صاحب کی اپنی ایک رائے ہے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نہ ان کی اور نہ میرے رائے پر فیصلہ کرے گا بلکہ وہ آئین میں متعین اپنی حدود کے حساب سے ہی کوئی فیصلہ کرے گا۔

’شاہی فرمان کے ذریعے عمران خان کو رہا نہیں کیا جاسکتا‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سب سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ موجود ہے تو انہوں نے کہا کہ عمران خان کی قید یا رہائی کے حوالے سے میں مغل بادشاہ کی طرح کوئی فرمان جاری نہیں کر سکتا کیوں کہ پاکستان ایک ترقی پذیر جمہوریت ہے جہاں آئینی انصرام موجود ہے اور یہاں عدالتی طریقہ کار کی ایک اپنی اہمیت ہے اس پر ماضی میں بھی لوگ سوالات اٹھاتے رہے ہیں اور آج بھی اٹھا رہے ہیں لیکن بہرحال عمران خان سمیت کسی بھی سیاسی شخصیت کے بارے میں جو بھی کوئی فیصلہ ہو گا وہ عدالتی پراسیس کے نتیجے میں ہو گا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر عدالتی عمل کے نتیجے میں عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملتی ہے تو وہ حصہ لیں گے لیکن اگر نہیں تو میں کیسے اس پابندی کو ختم کر سکتا ہوں۔

’نگراں وزیر اعظم بننے سے پہلے مریم نواز کے علاوہ آصف زرداری اور عمران خان سے بھی ملا‘

جب انوارالحق کاکڑ سے پوچھا گیا کہ کیا نگراں حکومت مسلم لیگ نواز کے لیے کوئی نرم گوشہ رکھتی ہے تو انہوں نے کہا کہ ’میں مسلم لیگ نواز کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے تاثر کو مکمل طور پر رد کرتا ہوں‘۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیر اعظم بننے سے قبل مریم نواز سے میری ملاقات ہوئی تھی اور میں اس معاملے میں غلط بیانی نہیں کروں گا لیکن عہدہ سنبھالنے سے پہلے میری بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان، آصف زرداری اور 9 مئی واقعات سے قبل عمران خان سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں کوئی بیوروکریٹ نہیں بلکہ ایک رکن پارلیمنٹ تھا اور وہاں سے مستعفی ہو کر میں نے یہ منصب سنبھالا ہے اور کون سی سیاسی جماعت یا کون سے لوگ ہوں گے جو مجھ سے ملاقاتیں نہیں کرتے ہوں گے لہٰذا کسی ایک ملاقات کو ایک جماعت سے جوڑ دینا انصاف پر مبنی نہیں۔

کیا میاں نواز شریف کسی ڈیل کے تحت واپس آ رہے ہیں؟

 وزیر اعظم نے کہا کہ ایک نگراں حکومت اس طرح کی کسی ڈیل کا کیا حصہ ہو گی اور کیوں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف جب ایک عدالتی فیصلے کے تحت ملک سے باہر گئے تو اس وقت عمران خان کی حکومت تھی، اس وقت نہ تو اس نگراں سیٹ اپ اور نہ ہی پی ڈی ایم جماعتوں کی حکومت تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میاں نواز شریف کو وطن واپسی پر کچھ قانونی سوالات کا سامنا کرنا ہوگا اور ان سوالات کے جوابات بھی قانونی ہیں۔

’دنیا میں اس وقت ترقی پذیر جمہوریت کے سفر کا دھارا الٹ چکا ہے‘

وزیر اعظم کاکڑ نے کہا کہ دنیا میں مکمل جمہوری نظام کی طرف بڑھتے ہوئے ممالک کے سفر کا دھارا الٹ چکا ہے، بھارت میں جمہوریت کی شکل میں سامراجیت پروان چڑھ رہی ہے، چین اور سنگاپور میں سیاسی حقوق تو بہت زیادہ نہیں لیکن معاشی اعتبار سے وہ زیادہ ترقی کر گئے ہیں اور اس طرح دنیا بھر میں ترقی کا کوئی واحد طریقہ کار نہیں۔

کیا وزیراعظم کے گاؤں میں آج بھی بجلی نہیں؟

وزیراعظم کاکڑ نے کہا کہ ان کے دادا گاؤں سراخولہ کو چھوڑ کر چلے گئے تھے اور خان آف قلات نے انہیں ایک اسکالرشپ دیا تھا جس پر پہلے وہ ایف سی کالج لاہور اور اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے آئے تو میڈیا نے اس طرح کی باتوں کو مشہور کر دیا کہ یہ وزیراعظم کا گاؤں ہے حالانکہ میرے دادا مرتے دم تک ریاست قلات ہی میں رہے اور سراخولہ میں صرف مدفون ہیں اور میرے والد بھی قلات ہی میں رہے۔

’صوبائی خود مختاری کے نام پر شہری ترقی کے ماڈل کو فروغ دیا گیا‘

وزیر اعظم نے کہا کہ صوبائی خودمختاری کے نام پر صرف صوبائی دارالحکومتوں کو بہتر بنایا گیا جبکہ ان کے ساتھ ملحقہ علاقے ترقی سے محروم رہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے سینیٹر اور نگراں وزیراعظم بن جانے سے شہری ترقی کا وہ ماڈل تبدیل نہیں ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ کے بعد ایک صوبائی فنانس کمیشن بننا تھا جس کے بعد سراخولہ میں اسپتال اور اسکول کی منظوری ہونی تھی اس چیز میں اگر میں نے رکاوٹ ڈالی ہے تو میں قصوروار ہوں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ صوبائی فنانس کمیشن منظور کیوں نہیں ہوا؟

وزیراعظم نے کہا کہ مالیاتی تقسیم کے حوالے سے جتنے مطلق العنان اختیارات وزرائے اعلٰیٰ کو دے دیے گئے ہیں اس وجہ سے اب لوگ وفاقی وزیر کی بجائے صوبائی وزیراعلٰی بننا چاہتے ہیں۔

’غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی بیدخلی کا فیصلہ کیا گیا‘

وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغان مہاجرین سمیت کسی بھی قسم کے مہاجرین کو نہیں نکال رہے بلکہ صرف غیر قانونی طور پر مقیم لوگوں کو نکال رہے ہیں تاکہ وہ اپنے ملک جاکر پھر قانونی طور پر پاکستان آئیں۔

’پاک بھارت تعلقات میں بہتری آنی چاہیے لیکن فی الحال اس کا کوئی امکان نہیں‘

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں آر ایس ایس کی سوچ اور مسئلہ کشمیر حائل ہے، میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آنی چاہیے لیکن حقیقت پسندانہ انداز میں دیکھا جائے تو اس کے فی الحال کوئی امکانات نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں ہندوستان کا اجارہ داری کا منصوبہ ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کوسکھوں، عیسائیوں، جین مت اور بدھ مت سمیت چھوٹی اقلیتوں کی آواز بن کر اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔

’اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کہیں کوئی بات نہیں چل رہی‘

وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست تھی اور ہے اور ہم فلسطینیوں کی پیش کردہ 2 ریاستی تجویز اور مہاجرین کی ان کی زمینوں پر واپسی کے حامی ہیں۔

کیا معاشی بہتری کے اثرات دور رس ہوں گے؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میرے خیال سے اس کے دوررس اثرات ہوں گے کیونکہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام قانون سازی کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے اور ہمارے بڑے معاشی فیصلے اسی پلیٹ فارم سے ہو رہے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ ڈالر کے ریٹ کا نیچے جانا پہلے بھی ہوا ہے لیکن ڈالر کے ریٹ میں 40 یا 45 روپے کی ایک دم سے کمی پہلی دفعہ ہوئی ہے اور چونکہ عام لوگوں، میڈیا اور کاروباری طبقے نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے فوائد کو دیکھ لیا ہے اس لیے اس کا جاری رہنا ضروری ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل میں فوج کا کرادار ایک اسٹاپ گیپ انتظام ہے اور فوج معاشی بحالی کے عمل کو مہمیز دے رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ معدنی ذخائر کے حوالے سے بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ صوبائی حکومتیں قانون سازی کرنے میں ناکام رہیں تو کیا انہیں جی ایچ کیو نے ایسا کرنے سے روکا تھا تو اس لیے اسٹاپ گیپ یا عارضی انتظام کے تحت فوج یہ کام سرانجام دے رہی ہے اور حل یہ ہے کہ اس عارضی انتظام کے ساتھ ساتھ مستقل انتظام بھی کیا جائے جو صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔

بلوچستان کی محرومیاں دور ہوں گی؟

بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان کا ایک مسئلہ سیکیورٹی ہے اور دیگر میں وسائل کی کمی اوران کی لوٹ مار بھی شامل ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کل کوئٹہ میں ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں سینکڑوں گھوسٹ اسکولز اور گھوسٹ بنیادی صحت مراکز ہیںجن کی وجہ سے کچھ لوگ ارب پتی بن گئے لیکن عام بلوچ وہیں کا وہیں رہا۔

بلوچستان میں لاپتا افراد کا مسئلہ

وزیر اعظم نے کہا کہ مسنگ پرسن سکیورٹی سے متعلق ایک معاملہ ہے اور یہ صرف ایک علامت ہے اصل بیماری کچھ اور ہے۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اصل بیماری یہ ہے کہ ہم نے شناخت کی بنیاد پر ایک مسلح جدوجہد شروع کی ہوئی ہے جس میں ہم پاکستان ایران اور افغانستان کے کچھ علاقوں کو ملا کر گریٹر بلوچستان بنانا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت قائم ایک قانون ملک پاکستان کا جغرافیہ بزور بازو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں وہاں دہشت گردی میں ملوث ہیں لیکن ملزمان کو عدالتوں سے سزا سنائی جانے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

’بلوچ علیحدگی پسندی میں شدت اکبر بگٹی کے بعد نہیں نواب خیر بخش مری کی گرفتاری سے آئی‘

وزیراعظم نے کہا کہ بلوچ علیحدگی پسند نواب خیر بخش مری کو امامِ آزادی کہتے ہیں اور جو القابات وہ اکبر بگٹی کے لیے استعمال کرتے تھے وہ میں میڈیا پر نہیں بتا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ نواب خیر بخش مری کو ہائیکورٹ کے ایک جج کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور انہوں نے آزادی کے لیے آپ مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ انہوں نے کہا کہ اب آپ فیصلہ کریں کہ آپ کو ہائیکورٹ کے ایک جج کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے اور آپ ریاست سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp