سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے سیر تلیگرام تک 14 یا 15 کلومیٹر کی مسافت پر ایک سے ایک خوبصورت درہ ملتا ہے، جہاں فطرت سماعت پر بے حد مہرباں رہتی ہے۔ تاحدِ نگاہ فلک بوس پہاڑ اور اُن کے چرنوں میں بہتی چھوٹی بڑی ندیاں، کسی جنت سے کم نہیں۔
یہ درے ‘املوک’ یعںی جاپانی پھل سے اَٹے پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ ناشپاتی کی کئی اقسام بھی یہاں پیدا ہوتی ہیں اور آڑو، آلوچہ اور خوبانی کے تو یہاں پر اچھے خاصے باغات ہیں۔ سبزیاں بھی یہاں وافر مقدار میں اگائی جاتی ہیں۔
مگر ان سب کے ساتھ یہاں کی وجۂ شہرت ایک خوبصورت آبشار ہے، جو ‘تمبہ گٹ’ کے نام سے مشہور ہے۔ موسمِ بہار میں یہ جوبن پر ہوتی ہے اور اس سے گرتی پانی کی پھوار دور دور تک محسوس ہوتی ہے۔
وجۂ تسمیہ
’تمبہ گٹ‘ دراصل پشتو کے دو لفظوں کا مرکب ہے، ’تمبہ‘ کے معنی چٹان کے ہیں اور ’گٹ‘ پتھر کو کہتے ہیں۔ دراصل یہ آبشار جس جگہ واقع ہے، وہاں دور سے چٹانوں میں بڑے بڑے پتھر دکھائی دیتے ہیں۔جہاں سے پانی آبشار کی شکل میں گرتا ہے، وہ جگہ بھی بڑے پتھروں پر مشتمل ہے۔
آبشار تک رسائی کیسے حاصل کی جائے؟
اگر آپ کے پاس اپنی گاڑی ہے، تو پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ 14 یا 15کلومیٹر کی مسافت پر ’سیر‘ گاؤں آتا ہے، جسے عموماً ’سیر تلیگرام‘ کہا جاتا ہے۔ دراصل سوات میں کئی گاؤں ایسے ہیں جن کے نام ایک ساتھ لیے جاتے ہیں، مثلاً ‘ککڑئی سیرئی’، ‘اوڈیگرام بلوگرام’، ‘گاڈو ڈاگے’ وعلی ہذاالقیاس۔
ان میں ’ککڑئی‘ الگ جب کہ ’سیرئی‘ الگ گاؤں ہے۔ اس طرح ’اوڈیگرام‘ الگ اور ’بلوگرام‘ الگ گاؤں ہیں، مگر ان کے نام ایک ساتھ لیے جاتے ہیں۔ اسی طرح سیر تلیگرام دو الگ الگ گاؤں ہیں، لیکن نام ان کا ایک ساتھ لیا جاتا ہے۔
اگر آپ کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہے تو بھی ٹینشن نہ لیں۔ مینگورہ شہر سے ہائی ایس گاڑیاں ملم جبہ ٹاپ کے لیے نکلتی ہیں۔ آپ مناسب کرایہ ادا کرکے راستے ہی میں ‘سیر’ کے مقام پر اُتر جائیں۔ سڑک سے ایک راستہ پہاڑ کا سینہ چیر کر اوپر کی طرف نکالا گیا ہے، جس پر ‘خوڑ پٹی’ (چھوٹا گاؤں) تک عام گاڑی میں بھی جایا جاسکتا ہے…… لیکن میں ہائیکنگ کو ترجیح دوں گا۔
ہائیک کیسی ہے؟
آبشار تک دو ڈھائی گھنٹے کی ایک عام سی ہائیک ہے، جو بتدریج مشکل ہوجاتی ہے۔ دو تین سال قبل راستہ کچا تھا۔ اب آدھی ہائیک سیمنٹ سے بنے راستے پر کی جاتی ہے جب کہ باقی آدھی ہائیک ’جیپ ایبل‘ ٹریک پر، جسے مجھ جیسے ہائیکنگ اور ٹریکنگ کے دلدادہ حاصلِ سفر مانتے ہیں۔
ماہِ اکتوبر میں پورے راستے پر سوات کا آخری موسمیاتی پھل املوک کے درخت نظر آتے ہیں۔ موسمِ بہار میں آبشار کا پانی نیچے آکر ایک گنگناتی ندی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ مَیں اب کی بار جس ٹیم کا حصہ تھا، وہ سوات کے ایک نجی سکول (ایس پی ایس) کی پانچویں اور چھٹی جماعت کے ننھے منے بچوں پر مشتمل تھی۔ مذکورہ بچے دو ڈھائی گھنٹے میں آبشار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
ایک ٹکٹ میں دو مزے
اگر آپ موسمِ بہار میں تمبہ گٹ آبشار جانے کا قصد کرتے ہیں، تو آپ کو ایک ٹکٹ میں دو مزے ملیں گے۔ دراصل تمبہ گٹ میں دو آبشاریں ہیں۔ ماہِ اگست تک دونوں آبشاریں جوبن پر ہوتی ہیں، مگر ستمبر کے آغاز کے ساتھ ہی ایک آبشار کسی نحیف و نزار خاتون کی طرح پانی کی کمی کی وجہ سے اپنا حسن کھودیتی ہے۔ بس ایک آبشار جو راستے میں پڑتی ہے، اس کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
ہائیکنگ کا موزوں دورانیہ
مارچ سے لے کر اگست یا پھر ستمبر کے آخری ہفتے تک کا دورانیہ ‘تمبہ گٹ’ کی ہائیکنگ کے لیے آئیڈیل وقت ہے۔ اس دوران میں دونوں آبشاروں میں پانی کی مقدار اچھی خاصی ہوتی ہے۔ بہار کے موسم میں پورا درہ جنگلی پھولوں کی وجہ سے کسی دلہن کی طرح بنا سنورا ہوا دکھائی دیتا ہے اور شاید موسمِ بہار ہی ‘تمبہ گٹ’ جانے کا بہترین دورانیہ ہے۔
ہائیک پر جاتے وقت کیا کیا ساتھ لیا جائے؟
تمبہ گٹ کی ہائیکنگ پر جاتے وقت کچھ اشیاء ساتھ لے جانا نہ بھولیں۔ بیک پیک، پراپر ٹریکنگ سوٹ، ٹریکنگ شوز، اور ہائیکنگ اسٹک۔ پانی کے جھرنے ویسے تو جگہ جگہ ہیں، مگر پھر بھی بوتل ساتھ لینا نہ بھولیں۔ اس طرح خشک میوہ جات بھی شوگر لیول کم ہوتے وقت کام آسکتے ہیں۔ ویسے بھی ہائیکنگ اور ٹریکنگ کے دوران ‘کھجور’ سے بہتر کوئی آپشن نہیں۔
ایک اچھا کیمرہ یا موبائل فون ضرور ساتھ لیتے جائیں، کیوں کہ وہاں تصویر کشی کے لیے ایک سے ایک خوبصورت جگہ موجود ہے۔