دنیا بھر کی طرح پاکستان میں روزانہ لاکھوں گاڑیاں سڑکوں پر رواں دواں نظر آتی ہیں جبکہ آئے روز گاڑیاں مختلف حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے گاڑیوں کے مختلف پرزہ جات، لائٹس یا اسپیئر پارٹس کا نقصان ہو جاتا ہے۔
گاڑی مالکان کی اکثر یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی گاڑی میں اچھے معیار کا سامان خرید کر لگائے، مارکیٹ میں کابلی اسپیئر پارٹس کو سب سے معیاری سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی گاڑی کی لائٹ، انجن یا کوئی اور سامان تبدیل کرانا ہو تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نئے کی بجائے کابلی سامان خرید کر اپنی گاڑی پر لگائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ’کابلی‘ سامان پہلے سے کسی گاڑی پر استعمال بھی ہوا ہوتا ہے اور اس کی قیمت نئے سامان کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔
وی نیوز نے اس بات کی تحقیق کی کہ کیا ’کابلی‘ سامان افغانستان کے شہر کابل سے آتا ہے اور اس سامان کو نئے سامان پر فوقیت کیوں جاتی ہے؟ تو معلوم ہوا کہ گاڑیوں کا سامان کابل سے آتا ہی نہیں ہے، گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس، انجن وغیرہ سب سامان کنٹینر پر جاپان سے آتا ہے جو کہ یہاں مختلف شہروں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
راولپنڈی کی چاہ سلطان مارکیٹ گاڑیوں کے سامان اور اسپیئر پارٹس کے حوالے سے سب سے پرانی مارکیٹ تصور کی جاتی ہے، اس مارکیٹ میں مہمند ایجنسی اور باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والی پختون برادری کئی دہائیوں سے کام کر رہی ہے۔
چاہ سلطان مارکیٹ میں گاڑیوں کے ایک چھوٹے سے نٹ سے لے کر مکمل انجن اور دیگر سامان آسانی سے دستیاب ہوتا ہے، کوئی بھی شخص ایک پرانی گاڑی لا کر اس کو مکمل طور پر نیا بنوا سکتا ہے۔
چاہ سلطان مارکیٹ میں کئی دہائیوں سے گاڑیوں کا سامان فروخت کرنے والے عبد الغفور خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی مارکیٹوں میں دستیاب گاڑیوں کا ’کابلی‘ سامان اور اسپیئر پارٹس افغانستان کے شہر کابل سے نہیں آتے، یہ سامان جاپان تائیوان اور ملیشیا سے کنٹینر کے ذریعے پورٹ پر آتا ہے جس کے بعد اسلام آباد اور کراچی ڈرائے پورٹ پر پہنچتا ہے جہاں کروڑوں روپے کی کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کے بعد سامان کو کلیئر کیاجاتا ہے اور پھر دکاندار اپنی دکان پر لے آتا ہے۔
عبد الغفور خان نے بتایا کہ 2008 کے بعد سے پاک افغان بارڈر پر سختیاں بڑھ چکی ہیں، اب افغانستان سے گاڑیوں کا سامان لانا ممکن نہیں ہے، اب کراچی پورٹ کے کھلنے کے بعد پاک افغان بارڈر سے گاڑیوں کا سامان لانے پر پابندی عائد ہے، یہی وجہ ہے کہ دکاندار جاپان سے سامان خرید کر پاکستان لاتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ گاڑیوں کے سامان کا ایک کنٹینر 60 لاکھ سے 1 کروڑ روپے کی کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کے بعد حاصل کیا جاتا ہے۔
گاڑیوں کا سامان کنٹینر میں کراچی تک براستہ سمندر لایا جاتا ہے جس کے بعد ٹرالے پر کنٹینر کو اسلام آباد ڈرائے پورٹ پر پہنچایا جاتا ہے۔
عبد الغفور خان نے مزید بتایا کہ گزشتہ کئی سالوں سے مارکیٹ میں گاڑیوں کے کابلی سامان کی ڈیمانڈ انتہائی زیادہ ہے، پرانی گاڑیوں کا سامان اب نیا نہیں بنتا اور جو تائیوان یا ملائیشیا سے آتا ہے وہ اتنا معیاری نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ لوگ دگنی قیمت ادا کر کہ جاپان سے آنے والے کابلی سامان کو فوقیت دیتے ہیں۔ جاپان میں پرانی گاڑیوں کو سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہیں ہوتی، اس لیے ان گاڑیوں کا سامان اتار لیا جاتا ہے جسے پاکستانی خرید لیتے ہیں اور پاکستان منگوا لیتے ہیں۔
عبد الغفور خان نے مزید کہا کہ کابلی سامان سیکنڈ ہینڈ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا معیار اتنا اچھا ہوتا ہے کہ ملائیشیا اور تائیوان سے آیا ہوا گاڑیوں کا سامان آدھی قیمت میں دستیاب ہونے کے باوجود فروخت نہیں ہوتا، ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی گاڑی میں کابلی سامان ڈلوائے۔