وہ لمحہ جب جان بچانے والا وائرس اسمگل کیا گیا

منگل 3 جنوری 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سنہ 1985 میں سرد جنگ کے عروج پر دنیا کو ایک نئے اور پراسرار وائرس کی وجہ سے انفیکشن اور اموات کی لہر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جبکہ اس سے قبل نوجوان ہم جنس پرست افراد کے غیر معمولی انفیکشن اور نایاب کینسر سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے بعد 1981 میں ایکوائرڈ امیونو ڈیفینسی سنڈروم یعنی ایڈز کو ایک نئی بیماری کے طور پر تسلیم کیا جا چکا تھا۔

اس بیماری سے متعلق یہ بھی علم ہو چکا تھا کہ یہ ایک ہی سرنج کو استعمال کرتے ہوئے ٹیکے کے ذریعے منشیات استعمال کرنے والوں کو بھی متاثر کرتی تھی جبکہ چند افراد، متاثرہ شخص کے انتقال خون کے ذریعے بھی اس سے متاثر ہوئے تھے۔

اس مرض کے چند برس بعد ہیومن امینو ڈیفیشنسی وائرس یعنی ایچ آئی وی کو اس کی وجہ قرار دیا گیا تھا۔

دنیا بھر میں لوگ اس بیماری سے خوفزدہ تھے اور بہت سے ممالک میں اس سے آگاہی سے متعلق مہمات شروع کی گئی تھیں لیکن بلغاریہ میں ایسی کوئی آگاہی مہم شروع نہیں کی گئی تھی جو اس وقت ایک سخت گیر کمیونسٹ حکومت کے زیر انتظام تھا۔

بلغاریہ کے حکومتی حکام نے اس بیماری کے خطرے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس بیماری کو انھوں نے ’ہم جنس پرستوں کی بیماری‘ اور زوال پذیر مغرب کے لیے مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس حقیقت کو ماننے سے انکار کر دیا کہ بلغاریہ کے ہسپتالوں میں غیر ملکی طلبا اور ملاح مر رہے ہیں۔

ماہر ڈاکٹر کی دلچسپی
ایسے میں ملک میں وائرل بیماریوں کی ماہر ڈاکٹر رادکا ارگیرووا، جو اس وقت بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ادارے میں کام کرتی تھیں، نے ماسکو کے معتبر تعلیمی ادارے ایوانوسکی انسٹیٹیوٹ سے 1970 کی دہائی کے اوائل میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور انھیں اپنے کام سے بہت لگاؤ تھا۔

ڈاکٹر ارگیرووا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں بلغاریہ کی اکیڈمی آف سائنسز کی ایک لیبارٹری میں کام کر رہی تھی اور اس ادارے میں وائرلوجی کے لیے ایک بہت ہی دلچسپ لیبارٹری تھی۔‘

وہ اور ان کے ساتھی جن انسانی وائرسوں کا مطالعہ کر رہے تھے ان میں سے ایک ایچ آئی وی تھا۔

انھوں نے 1970 کی دہائی کے اواخر سے تحقیق کا اپنا راستہ مرتب کر رکھا تھا اور اس ضمن میں وہ بیرون ممالک کے سائنسی لٹریچر سے آگاہی حاصل کر رہے تھے۔

اگرچہ اس وائرس کے بارے میں طبی طور پر علم تھا مگر اس کی وجہ سے ہونے والی مہلک بیماری ایک معمہ بنی ہوئی تھی۔

اس پر سونے پر سہاگہ یہ تھا کہ بلغارین حکام اس بارے میں تحقیق کرنے اور جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے مگر ڈاکٹر رادکا ارگیرووا کو اس بارے میں دلچسپی تھی۔

بلغاریہ سے باہر جانا یا اسے چھوڑنا ان کے لیے آسان نہیں تھا لیکن جون 1985 میں ارگیرووا ایک سائنسی کانفرنس میں شرکت کرنے اور ایک تحقیق پیش کرنے کے لیے ہیمبرگ، اس وقت کے مغربی جرمنی گئی تھیں۔

یہ کانفرنس لیوکیمیا اور اس کے نئے وائرس سے ممکنہ تعلق و اثرات سے متعلق تھی۔ یہ ایک شاندار طبی بیٹھک تھی جس میں دنیا بھر سے ماہر وائرولوجسٹ نے شرکت کی، جن میں مشہور امریکی محقق ڈاکٹر رابرٹ گیلو بھی شامل تھے، جو بعد کے برسوں میں ایچ آئی وی کی جانچ کے لیے خون کے ٹیسٹ کو متعارف کروانے کے لیے مشہور ہوئے اور انھوں نے ایچ آئی وی کی تحقیق میں اہم کردار ادا کیا۔

ڈاکٹر گیلو نے اسی برس بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ اتنی تیزی سے پھیلے گا کیونکہ اس قسم کے وائرس کی منتقلی مشکل ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ دنیا کے مختلف خطوں میں پھیل رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں کبھی بھی اس وائرس سے اتنی اموات کا اندازہ نہیں تھا۔ اس مرض سے شدید بیمار ہونے والے افراد کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔‘

ڈاکٹر ارگیرووا بتاتی ہیں کہ ’اس وقت میں تمباکو نوشی کر رہی تھی کہ وہ میرے پاس آئے اور انھوں نے ایک سگریٹ طلب کیا۔ جب انھیں علم ہوا کہ میں کہاں سے آئی ہوں تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ بلغاریہ میں ایڈز کی کیا صورتحال ہے؟‘

’میں نے جواب دیا کہ میں آپ کو نہیں بتا سکتی کیونکہ ہمارے ہاں اب تک اس کی کوئی تشخیص ہی نہیں ہوئی۔ لہذا میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ ہمیں ٹیسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔‘

’ڈاکٹر گیلو نے کہا کہ تو برائے مہربانی اس کی جانچ کریں تو میں نے کہا کہ مگر میرے پاس تو وائرس ہی نہیں۔‘

ایسے میں ڈاکٹر گیلو نے ایک حل نکالا، انھوں نے اپنے ایک جرمن ساتھی سے کہا کہ وہ لیبارٹری میں ایچ آئی وی کا ایک وائرس تیار کریں اور اسے ایک جدید موبائل فون کے سائز کے شیشے کی ٹیوب میں بند کر کے پیکٹ بنائیں۔

چند دن بعد انھوں نے وہ پیکٹ ڈاکٹر ارگیرووا کو دیا کہ وہ اسے اپنے بیگ میں رکھ کر اپنے ملک سمگل کر لیں۔

ڈاکٹر ارگیرووا نے اس بارے میں بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ سرخ رنگ کا تھا اور آپ وائرس یا خلیات کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ یہ ریڈ وائن کی طرح تھا اور اس کی دو شیشیاں تھیں: ایک متاثرہ خلیات کے ساتھ اور دوسری غیر متاثرہ خلیات کے ساتھ۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے وہ دو چھوٹی شیشیاں لیں، انھیں اپنے بیگ میں رکھا اور فرینکفرٹ سے پرواز لے کر دارالحکومت صوفیہ آ گئی۔‘

بشکریہ بی بی سی

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp