پولیس کو سزا کے طور پر پونچھا لگانے کا عدالتی حکم، وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟

منگل 17 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ روز کراچی کی مقامی عدالت میں جوڈیشل مجسٹریٹ ویسٹ 22 نمبر کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک پولیس اہلکار عدالت میں پونچھا لگاتے دیکھا گیا تاہم چند سیکنڈز کی اس ویڈیو سے اصل کہانی پھر بھی آشکار نہ ہوسکی۔

عدالتوں سے بعض دفعہ دلچسپ سبق آموز سزائیں سننے کو ملتی ہیں۔ ایک بار کراچی کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ملزم ایک سال تک ہر جمعہ کو سڑک کنارے ایک پلے کارڈ تھام کر کھڑے ہونے کی سزا سنائی، جس پر غفلت اور لاپرواہی سے گاڑی چلانے پر تنبیہ درج تھی۔

ظاہر ہے کہ اس نوعیت کی سزا کے پس پردہ ایک نوعیت کی اصلاحی سزا مقصود تھی تاہم گزشتہ روز وائرل ہونیوالی اس ویڈیو کے حوالے سے بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک سزا تھی، تو کیا واقعی ایسی سزا ہو سکتی ہے؟

اس سوال کے ساتھ جب سپریم کورٹ کے سابق جج وجیہ الدین احمد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ نہ صرف پولیس اہلکار بلکہ قانون کسی بھی شہری کی بے عزتی کی اجازت نہیں دیتا، اس طرح کے اقدامات سے معاملات مزید بگاڑ کی طرف جارہے ہیں۔

’اگر پولیس اہلکار کسی غفلت، لاپرواہی یا کسی توہین کا مرتکب ہوا ہے تو ایسی صورت میں ایک قانونی طریقہ کار موجود ہے اور اگر اس قانون کے مطابق کام کیا جائے تو سخت سے سخت سزائیں موجود ہیں اور پولیس اہلکار اپنی نوکری سے بھی ہاتھ دھو سکتا ہے۔‘

جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کے مطابق ایک پولیس اہلکار کو کسی غفلت یا عدالتی حکم عدولی پر اگر قانون کے مطابق سزا دینے کے بجائے آپ نے اسکی بے عزتی کی تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ایک بڑی سزا کی بجائے اس کی تذلیل کے ساتھ ایک چھوٹی سزا بھی دیدی۔

’مطلب معاشرے میں اس سے خیر نہیں بلکہ شر کا امکان ہے۔ اس طرح کے عمل میں متعلقہ مجسٹریٹ کے خلاف کاروائی ہوسکتی ہے۔‘

اس معاملے پر ریٹائرڈ ایس پی محمد جہانگیر مغل نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آئی جی سندھ پولیس سمیت دیگر اداروں سے نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ باوردی سب انسپکٹر سے پوچا لگوانا درست عمل نہیں۔ اگر کسی پولیس افسر  کا قصور ہے تو متعلقہ ادارے کو محکمانہ کاروائی کا حکم دیا جاسکتا ہے۔

پولیس کے مطابق 8 اہلکاروں کو اسی عدالت سے کون کون سی سزائیں ہوئی؟

پولیس کے 8 افسروں کی جانب سے ایس ایس پی انویسٹیگیشن ون ویسٹ کو بھیجی گئی ایک درخواست میں جوڈیشل مجسٹریٹ سرجانی ٹاؤن 22 نمبر کے غیر مناسب رویے کی شکایت کی گئی ہے۔ مذکورہ مجسٹریٹ کے باعث پولیس افسروں سے کام نہیں ہو پا رہا ہے۔

’پولیس افسران کو ہتھکڑیاں لگا کر جیل بھیجنا معمول بن چکا ہے، اس سے بڑھ کر یہ کہ بھری عدالت میں صفائی کرانا ہمارے مورال کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ متعلقہ مجسٹریٹ نے ہمیں بار بار کہا ہے کہ آپ لوگ کسی اور تھانے میں تبادلہ کرا دو ورنہ میں اور بھی سختی سے پیش آؤں گا۔‘

پولیس اہلکاروں کی جانب سے گزارش کی گئی ہے کہ ان کی داد رسی کی جائے تاکہ وہ مہذب انداز میں اپنا کام کرسکیں۔

پولیس کی اس درخواست میں مجسٹریٹ کی جانب سے پولیس کو دی گئی مختصر سزاؤں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس میں متعلقہ مجسٹریٹ نے پولیس اہلکار طارق خالد کو 2 روز کے لیے جیل بھیجا اس کے ایک دن بعد پولیس اہلکار شکیل محمود کو بھی 2 روز کے لیے جیل بھیجا ۔دو دن کے بعد تھانہ سرجانی ٹاؤن کے 3 پولیس اہلکاروں کو ہتھکڑیاں لگا کر پورے سٹی کورٹ میں گھمایا گیا۔

پولیس کا الزام ہے کہ متعلقہ عدالت فی چالان پر ایک ہزار جرمانہ عائد کرتی ہے، فائلیں منہ پر پھینک دی جاتی ہیں، پولیس اہلکار سہیل احمد کو 7 دن کے لیے جیل بھیجا گیا، سہیل احمد سے بھری عدالت میں جھاڑو پونچھا لگوایا گیا جو کہ پولیس اور عدالت کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

پولیس اہلکار شبیر احمد تنولی کو 3 روز کے لیے جیل بھیجا گیا جیل سے واپس آنے پر چالان پینڈنگ کی صورت میں ایک ہزار جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ پولیس اہلکار نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ جرمانہ ادا کرنے کے قابل نہیں، جس پر  عدالت نے پولیس اہلکار کو دوبارہ جیل بھیج دیا۔ مذکورہ اہلکار تاحال جیل میں ہے۔

جج نے ایسی کوئی سزا نہیں دی

ماہر قانون عبدالجلیل خان مروت نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ انکی متعلقہ مجسٹریٹ کے ساتھ اس واقعہ کے بعد ملاقات ہوئی ہے۔ مجسٹریٹ کے مطابق انہوں نے جھاڑو پونچھے کی کوئی سزا نہیں دی یہ ویڈیو خود بنائی گئی ہے۔ اس تفتیشی افسر کے پاس تقریباً 34 کے قریب مقدمات ہیں جس میں پچھلے  2 سے  6 مہینے تک یہ آفیسر تفتیشی رپورٹس عدالت میں پیش کرنے سے قاصر رہا ہے، جبکہ قانون میں چالان جمع کرانے کے لیے 17 دن مقرر ہیں۔

عبدالجلیل خان مروت نے مزید بتایا کہ متعلقہ عدالت اس آفیسر کو ستمبر کے مہینے میں دفعہ 485 ضابطہ فوجداری کے تحت جیل بھی بھیج چکی ہے اور اسکے علاوہ اسکو جرمانہ بھی کرچکی ہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ وکیل کا کہنا ہے کہ تھانہ سرجانی کے تقریباً 150 کے قریب مقدمات میں دیگر تفتیشی افسروں کا بھی یہی رویہ ہے اور وہ بھی متعدد وارننگ کے باوجود عدالت میں چالان پیش نہیں کرتے۔

ماہر قانون عبدالجلیل خان مروت کے مطابق پولیس کی جانب سے عدالتوں میں چالان پیش نہ کرنے کی وجہ سے یا تفتیش میں خامیاں چھوڑنے کے باعث متاثرہ شہری ناقابل تلافی نقصان اٹھاتے ہیں۔

’آئی جی سندھ ٹک ٹاکرز کے ذریعے پولیس محکمہ چلانے کے بجائے خدارا پولیس کا نظام حقیقی معنوں میں بہتر کرنے کی کوشش کریں تاکہ پولیس افسر ایسی جعلی ویڈیو کے ذریعے دوسروں کو بدنام کرنے کے بجائے اپنے فرائض سے احن طریقے سے عہدہ برآ ہوسکیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp