پچھلے ہفتے عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا مختصر فیصلہ دیتے ہوئے پارلیمنٹ کی بالادستی پر مہر ثبت کردی ہے۔ کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ آنا ہے جس میں اس بل کے مختلف پہلوؤں پر شاید عدالت عظمیٰ کے معزز جج اپنی اپنی آرا کا اظہار کریں گے۔
تفصیلی فیصلہ تو خیر جب آئے گا تب اس پر بات کریں گے، لیکن اس مقدمے کی سماعت کے دوران جن پہلوؤں پر بات ہوئی ہے اور جو اہم نکات اٹھائے گئے یا نہیں اٹھائے گئے میں نے سوچا ذرا ان پر تھوڑی روشنی ڈالی جائے تاکہ قارئین کو اسکے پس منظر بارے تھوڑی آگاہی ہوسکے۔
اکتوبر 1972 سے اپریل 1973 کے دوران 6 ماہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک نہیں 2 نہیں 3,3 بار آئین میں شامل ایک ایک آرٹیکل کے اغراض و مقاصد، انکی اہمیت اور قانونی پہلوؤں پر سیر حاصل دلائل دیے، تب جاکر مملکت خداداد کو آئین کی صورت میں یہ تحفہ ملا۔
عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر وکلا سے دلائل سن رہا تھا اور معزز جج جب درخواست گزاروں سے سوالات پوچھ رہے تھے تو میرے ذہن میں بھی ایک سوال آیا کہ آخر کوئی جج یا وکیل اس بارے بھی سوال کردے کہ آئین میں جو یہ آرٹیکل 191 شامل کیا گیا ہے، اسکے پیچھے بھی تو کوئی اغراض و مقاصد ہونگے۔ کیوں نہ 1973 کی آئین ساز اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ حاصل کرکے آرٹیکل 191 کو شامل کرنے کی وجوہات اور اس پر دلائل کو دیکھا جائے کہ آخر اس کا مقصد کیا تھا۔ لیکن نہ کسی معزز جج اور نہ ہی کسی وکیل نے اس طرف دھیان دیا۔
ویسے اگر قومی اسمبلی کے ریکارڈ سے 1973 کی اس آئین ساز اسمبلی کے اجلاسوں کی کارروائی پڑھیں تو آپ محظوظ ہوںگے۔ بڑی دلچسپ مباحث ہیں، اراکین اسمبلی کے مکالمے بھی پڑھن کے قابل ہیں۔
اسی طرح سماعت کے دوران ویسے تو کئی نکات پر سوال و جواب ہوئے لیکن اس میں ایک سوال بڑی اہمیت کا حامل تھا اور وہ تھا چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات کہ 1980 کے سپریم کورٹ رولز کے مطابق چیف جسٹس کے پاس بنچ تشکیل دینے کے صوابدیدی اختیارات موجود ہیں۔
تاریخ گواہ ہے یہ صوابدیدی اختیارات چاہے وزیراعظم کے پاس ہوں، صدر کے پاس ہوں، آرمی چیف کے پاس ہوں یا چیف جسٹس کے پاس ہوں، ان کا استعمال کسی نہ کسی موڑ پر باعث تنازعہ ہو ہی جاتا ہے۔
یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ بانی پاکستان پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل تمام صوابدیدی اختیارات، جن کے وہ 1935 کے انڈیا ایکٹ کے تحت مجاز تھے سر نڈر کردیے۔یعنی قیام پاکستان کے ساتھ ہی صوابدیدی اختیارات کا تصور ہی ختم ہوگیا۔
مزید پڑھیں
بہت بعد میں پھر یہ صوابدیدی اختیارات سابق آمر جنرل ضیا الحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے 1984-85 میں دوبارہ متعارف کرا دیے۔ صدر نے آٹھویں ترمیم میں 58 (2b) شامل کروا کر اسمبلی تحلیل کرنے کے صوابدیدی اختیارات حاصل کرلیے۔
ان صوابدیدی اختیارات کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ملکر کر ختم کرانے کی جدوجہد کی لیکن انہوں نے بھی 1997 میں ان صوابدیدی اختیارات میں سے صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات اور آرمی چیف کی تعیناتی کے صوابدیدی اختیارات ہی ختم کیے۔
واقفان حال بتاتے ہیں کہ ان اختیارات کے خاتمے سے اس وقت کی حکومت اور عدلیہ کے درمیان ایک تناؤ کا سلسلہ شروع ہوا اورمعاملات چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور نواز شریف حکومت کے درمیان باقاعدہ ٹکراؤ کی صورت اختیار کرگئے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ کے 1980 کے رولز کا کیا بنے گا جس کے تحت چیف جسٹس کے پاس بنچ تشکیل دینے کے اختیارات تھے؟ کیونکہ اس ایکٹ کے بعد یہ رولز redundant(بیکار) ہوجائیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تو پہلی سماعت پر ہی اپنے صوابدیدی اختیارات سرنڈر کرتے ہوئے دو سینیئر ججز سے مشاورت کے بعد سپریم کورٹ کا روسٹر جاری کردیا تھا۔ شنید ہے کہ اس ایکٹ کے منظور ہونے اور اطلاق کے بعد اب سپریم کورٹ کے 1980 کے رولز میں ترمیم کی جائے گی اور پریکٹس ایند پروسیجر ایکٹ کے مطابق نئے رولز بنائے جائیں گے۔
بہرحال سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ایک بات تو واضح ہوگئی ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلیری دکھائی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں کوئی ایک عام افسر بھی اپنے اختیارات نہیں چھوڑتا۔ اس صورتحال میں ملک کے چیف جسٹس نے رضاکارانہ طور پر نہ صرف اپنے اختیارات اپنے ساتھی سینیئر ججز کے ساتھ شیئر کیے بلکہ پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے اسکی آئین و قانون سازی کے حق کو بھی تسلیم کیا۔
گو کہ آنے والے چیف جسٹس صاحبان اس سے شاید متفق نہ ہوں اور اسکا ایک واضح اشارا جسٹس منیب اختر نے دوران سماعت دیا بھی ہے، تاکہ جب وہ چیف جسٹس بنیں اور اس قانون کے برعکس چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات دوبارہ سے بحال کریں تو کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا سکے کہ اسوقت آپ نے یہ معاملہ کیوں نہ اٹھایا۔ اس لیے وہ یہ بات ریکارڈ پر پہلے ہی لے آئے ہیں۔
مستقبل میں کیا ہوتا ہے وہ مستقبل میں دیکھا جائے گا، لیکن چیف جسٹس اور ان کے باقی ساتھی ججز نے پارلیمنٹ کا حق قانون سازی اور بالادستی کو جس طور تسلیم کیا، میرے نزدیک ان کا نام تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔