نہ پٹواری نہ سرخ فیتہ، نہ قطار نہ انتظار: سعودی عرب کا جدید نظام حکومت کیسا ہے؟

جمعرات 19 اکتوبر 2023
author image

وسیم عباسی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

زمین کا ’فرد‘ حاصل کرنا ہو، پولیس کو رپورٹ کرنی ہو، ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ہو، گھر میں پلاؤ یا کیک بنا کر بیچنا ہو یا پاسپورٹ بنوانا ہو، سب کچھ گھر بیٹھے ہو جائے تو زندگی کتنی آسان ہو جائے؟

جی ہاں! جو ہمیں خواب لگتا ہے وہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب میں ایک حقیقت ہے اور اب اس طرح کے ہر کام کے لیے آپ کو اپنےا سمارٹ فون پر صرف ایک ایپ یعنی ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کرنا ہوگی اور باقی کا کام وہیں ہو جائے گا۔

کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سعودی عرب نے کورونا کے بعد چند سالوں میں کتنی تیزی سے ای گورننس میں ترقی کی ہے کہ کئی ترقی یافتہ ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

 

سعودی عرب کا دورہ کرنے والے پاکستانی صحافی قاسم عباسی، علینہ شاہد، سحرش قریشی اور راقم

سعودی عرب کے دورے پر گئے مجھ سمیت 4 پاکستانی صحافی بھی دارالحکومت ریاض میں اترتے ہی اس وقت خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گئے جب اپنی مقامی سمز پر جدید ترین انٹرنیٹ  فائیوجی کا نشان دیکھا۔ یہیں سے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ یہاں ڈیٹا ٹرانسفر اور انٹرنیٹ کی طرح زندگی بھی بہت فاسٹ ہو گئی ہے۔

وہاں چند دن رہ کر ہمیں معلوم ہوا کہ سعودی عرب میں ہر چیز کے لیے ایپ موجود ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہی نظام حکومت چل رہا ہے۔

ریاض‘ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں اور فٹبال مداحوں کی توجہ کا مرکز

ریاض ایئرپورٹ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شامل ہے اور سعودی دارالحکومت دنیا کے مصروف ترین کاروباری شہروں میں شامل ہو چکا ہے، جہاں تقریباً ہر ماہ نئی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، نئی کمپنیاں کھل رہی ہیں، نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔

شہر کی کشادہ اور مصروف شاہراہیں، بلند و بالا عمارتیں اور بڑے بڑے شاپنگ مالز گواہی دیتے ہیں کہ سعودی عرب اب فقط تیل پر قناعت کرنے کے بجائے ترقی اور سرمایہ کاری کی طرف متوجہ ہو گیا ہے۔

ریاض کے بلیوارڈ سٹی میں جاکر یورپ کے کسی شہر کا گمان ہوتا ہے، جہاں جگمگ کرتی دکانیں، رنگ و نور سے سجے فوارے، امیتابھ بچن، سلمان خان سمیت دیگر اداکاروں کے ہاتھوں کے نشانوں سے سجے سینما گھر، گیم ایریاز اور ریستوران سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔

دوسری طرف یہ شہر فٹبال کے مداحوں کی جنت بنتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں سعودی فٹبال کلبز نے رونالڈو، نیمار، کریم بنزیما اور اینگلو کانتے سمیت دنیا کے بہترین فٹ بالرز کی خدمات حاصل کرکے دنیا بھر کے فٹبال فینز کی توجہ حاصل کر لی ہے۔

سعودی قیادت کے اس اکیلے قدم سے سعودی عرب کو اربوں ڈالر کی پبلسٹی اور سرمایہ کاری مل گئی اور آج بچہ بچہ سعودی فٹبال کلبز النصر، الہلال اور الہلی سمیت دیگر کے ساتھ ساتھ سعودی ثقافت اور طرز زندگی سے بھی آگاہ ہو رہا ہے۔

ای گورننس سے عوام کو سہولت اور کرپشن کا خاتمہ

میں آج سے 5-6 سال قبل ایک بار چین گیا تو وہاں ہر جگہ وی چیٹ سے خریداری اور پیمنٹ دیکھ کر بڑا حیران ہوا تھا اور سمجھا تھا کہ دنیا میں انٹرنیٹ کو سہولت کے لیے سب سے اچھا چین نے استعمال کیا ہے، مگر سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہر چیز کی ایپ دیکھ کر بہت خوشگوار حیرت ہوئی اور معلوم ہوا کہ سعودی عرب نے چپ چاپ ای گورننس کو زندگی کا حصہ بنا لیا ہے اور تاہم دنیا کو اس بارے میں کم ہی علم ہے۔

دورے کے دوران ایک کولیگ سحرش قریشی کی طبیعت کچھ خراب ہوئی تو میڈیکل اسٹور پر دوا لینے پہچے۔ وہاں پاکستان کی طرح اینٹی بائیوٹک بغیر نسخے کے نہیں ملتی تو بڑے پریشان ہوئے کہ وہ کیسے ملیں گی۔ مگر ہمارے میزبان نے بتایا کہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں، دن ہو یا رات آپ ’صحتی ایپ‘ کے ذریعے ڈاکٹر سے کسی وقت بھی آن لائن نسخہ لے سکتے ہیں اور یوں منٹوں میں دکان پر کھڑے کھڑے ہمیں ڈاکٹر کا مشورہ اور دوا دونوں مل گئے۔

وہاں ایک سینیئر سعودی صحافی سے پوچھا کہ یہاں کیا کیا آن لائن ہو سکتا ہے؟ اس کا کہنا تھا کہ تقریباً ہر سرکاری کام ایپ پر ہوتا ہے۔ میں نے سب سے مشکل کام کا سوچا کہ پراپرٹی کی خریدوفروخت میں تو پٹواری ضرور تنگ کرتا ہو گا۔ اس نے کہا کونسا پٹواری یہاں تو پراپرٹی 2 گھنٹے میں ایک سے دوسرے شخص کو ٹرانسفر ہو جاتی ہے۔

’فرض کیا آپ نے ریاض میں بیٹھ کر سعودی شہر جدہ میں گھر یا مکان خریدنا ہے تو آپ اسکی تصاویر آن لائن دیکھ کر مالک کی پروفائل دیکھیں گے اور رابطہ کرکے ڈیل ہو جانے پر پیسے آپ اسی وقت پراپرٹی سے متعلق ایک عدالت  میں ٹرانسفر کر دیں گے، عدالت ڈیٹا وغیرہ کا جائزہ لے گی کہ پراپرٹی قانونی طور پر کلیئر ہے، اس کے بعد وہ پراپرٹی آپ کے نام کر دے گی اور پیسے اس شخص کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جائیں گے۔ یہ کام فریقین کی مرضی سے 2 گھنٹے میں بھی ہو سکتا ہے‘۔

ہم جو زمین  کا ’فرد‘ لینے کے لیے بھی ہفتوں اور مہینوں پٹواری اور اس کے منشی کے چکر لگانے کے عادی ہیں یہ سن کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ صرف اس ایک ایپ سے پٹواری اور تحصیل دار کے نخروں سے بھی نجات مل جاتی ہے بلکہ کرپشن کا راستہ بھی بند ہو جاتا ہے۔

اسی طرح خواتین کی سہولت کے لیے ایپس ہیں جن کے ذریعے اپنا پکایا ہوا کھانا یا بیکری آئٹمز وہ دکانوں پر فروخت کے لیے رکھوا سکتی ہیں اور حکومت ایسی دکانوں کو خصوصی سبسڈی دیتی ہے تاکہ چھوٹے کاروباری افراد کو سہولت ہو۔

اسی طرح کلاوڈ کچن کے نام سے ایپ کے ذریعے کوئی بھی اچھا شیف اپنا آن لائن ریسٹورنٹ بغیر سرمایے کے بنا کر پیسے کما سکتا ہے۔

پولیس رپورٹ ہو یا گاڑی رجسٹر کروانی ہو یا پھر کوئی سرکاری دستاویز درکار ہو سب کچھ آن لائن ہو جاتا ہے۔

اسکالرشپ اور سعودی نوجوان

ہمیں بتایا گیا کہ سعودی عرب کی موجودہ ترقی کا سفر اس صدی کے آغاز میں اس وقت شروع ہوا جب سعودی حکومت نے لاکھوں نوجوانوں کو اسکالرشپ دے کر مغربی ممالک کی یونیورسٹیوں میں بھیجنا شروع کر دیا۔

یہ نوجوان وہاں سے حکومتی خرچ پر جدید تعلیم حاصل کرکے واپس آئے تو اپنے  ملک کی کایا پلٹنی شروع کر دی۔ اب سعودی عرب میں آئی ٹی ہو یا صحت، تجارت ہو یا صنعت یہ ہونہار سعودی جوان معیشت کے پہیے کو آگے بڑھا رہے ہیں، گو کہ ابھی بھی پاکستان اور دیگر ممالک سے لوگ مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں مگر آہستہ آہستہ مقامی جوان ہر شعبے کو سنبھال رہے ہیں۔

اس عمل کو شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے دور میں زیادہ رفتار سے آگے بڑھایا گیا ہے اور سعودی ویژن  2030 کے تحت روزگار کے نت نئے مواقع سامنے آ رہے ہیں۔ ریاض شہر میں ہماری کئی ایسے سعودی نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو صحت، انجینئرنگ اور آئی ٹی کے شعبہ جات میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔

روانی سے انگریزی بولتے ان نوجوانوں میں بین الاقوامی سوچ ہے اور دیگر قومیتوں  اور ثقافتوں کے لیے قبولیت اور فراخ دلی بھی ہے، جس سے سعودی عرب میں جدت کے سفر کو اور بھی رفتار مل رہئی ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان نے بھی 2001 کے بعد لاکھوں لوگوں کو بیرون ملک تعلیم کے لیے اسکالرشپ پر بھیجا ہے مگر اس طرح کے نتائج یہاں نہیں ملے۔ شاید اسکی وجہ واپسی پر ان نوجوانوں کو ایسے مواقع نہ ملنا یا پھر کچھ نوجوانوں کا ملک واپس نہ آنا بھی ہے۔

خواتین کا کردار

سعودی عرب کی ترقی کے اس نئے سفر میں خواتین کا بہت اہم کردار ہے۔ اب سعودی عرب میں وزارتوں سمیت اہم عہدوں پر اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو تعینات کیا گیا ہے جس کے مثبت اثرات معاشرے پر بھی نظر آ رہے ہیں۔

کچھ سال قبل جہاں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں ہوتی تھی اب وہی خواتین مملکت کو ہر شعبے میں آگے لے کر جا رہے ہیں۔ سعودی عرب کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ایس آر ایم جی کی سربراہ بھی ایک خاتون ہیں اور وہاں عرب نیوز میں جن سعودی صحافیوں سے ملاقات ہوئی ان کی پیشہ ورانہ سوجھ بوجھ نے پاکستانی وفد کو  خاصا متاثر کیا ہے۔

سعودی بولیوارڈ میں گیم ایریا میں خواتین مختلف دکانوں پر تنہا کاروبار کا انتظام و انصرام سنبھالے ہوئے تھیں۔ انتہائی خوش مزاج اور ذہین خواتین کی کاروباری سوجھ بوجھ سے بھی خوشگوار حیرت ہوئی۔ یوں لگا کہ سعودی خواتین ہمیشہ سے نظام حکومت چلانے کا موقع ملنے کو تیار تھیں اور موقع ملتے ہی ان کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آ گئیں ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp