بحریہ ٹاؤن کراچی کا مقدمہ کیا ہے؟

جمعرات 19 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اعجاز افضل خان نے ایک فیصلہ تحریر کیا جس کے تحت کراچی کی ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے پرائیویٹ ڈویلپر بحریہ ٹاؤن کے ساتھ زمین کے تبادلے کا جو معاہدہ کیا تھا اس کو کالعدم کر دیا اور قومی احتساب بیورو سے بحریہ ٹاؤن کے خلاف انکوائری شروع کر کے 3 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ بحریہ ٹاؤن نے دادو کے قریب زمین دے کر ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے 16896 ایکڑ زمین لی تھی اور اس پر ایک بڑا ہاؤسنگ منصوبہ شروع کیا۔

جسٹس اعجاز افضل نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ کیوںکہ اس معاملے اب چونکہ عام لوگوں کے مفادات بھی وابستہ ہو چکے ہیں اس لیے چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار اس معاملے پر عمل درآمد بینچ بنائیں۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن سے ایک ہزار ارب روپے کی ادائیگی کا کہا سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلے کے خلاف جب نیب نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا تو جون 2018 میں بحریہ ٹاؤن نے سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کی جس میں ابتدائی طور پر اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کو عدالت بلا کر کہا کہ آپ ایک ہزار ارب روپے جمع کروا دیں آپ کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی۔ لیکن بعد میں جسٹس ثاقب نثار نے نیب کو بحریہ ٹاؤن کے خلاف کارروائی سے روکتے ہوئے سپریم کورٹ فیصلے پر ایک عمل درآمد بینچ تشکیل دیا جس کی سربراہی سابق جج، جسٹس عظمت سعید شیخ کر رہے تھے۔

سپریم کورٹ عمل درآمد بینچ کا فیصلہ

سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ نے 21 مارچ 2019 کو بحریہ ٹاؤن کی 460 ارب روپے کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اسے 7 سالہ اقساط میں یہ رقم سپریم کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ اور یہ بھی کہا کہ اگر بحریہ ٹاؤن مسلسل 2 اقساط ایک ساتھ جمع نہ کروا سکا تو اسے ڈیفالٹ تصور کیا جائے گا۔ لیکن بحریہ ٹاؤن نے اب تک سپریم کورٹ میں صرف 65 ارب روپے ہی جمع کروائے ہیں۔

حالیہ پیش رفت

کل 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی دوبارہ سماعت ہوئی جس میں ایک بار پھر سے یہ سوال اٹھا کہ بحریہ ٹاؤن سے حاصل ہونے والے 460 ارب روپے کا اصل مالک کون ہے۔ آیا یہ پیسہ سندھ حکومت کا ہے یا ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا؟

 اس سوال کا جواب شاید اگلی 8 نومبر کی سماعت پر دیا جائے۔ لیکن بحریہ ٹاؤن کا کہنا ہے کہ اسے ڈی ایچ سے زیادہ مہنگی زمین دی گئی۔

 بحریہ ٹاؤن کے 460 ارب کی اقساط کون جمع کرواتا رہا؟

18 اکتوبر کی سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان اسلم بٹ سے سوال کیا کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اقساط کون جمع کرواتا رہا ہے؟

جس کے جواب میں سلمان اسلم بٹ نے جواب دیا کہ بحریہ ٹاؤن اس کے شیئر ہولڈرز اور کچھ دیگر لوگ۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ دیگر لوگ کون ہیں؟ تو سلمان اسلم بٹ نے جواب دیا کہ اس معاملے میں وہ اپنے مؤکل سے ہدایات لے کر جواب دیں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ برطانیہ سے کوئی رقم موصول ہوئی تھی جس کو اس 460 ارب کی رقم میں جمع کرا دیا گیا تو سلمان اسلم بٹ بولے کہ اس بارے میں باقاعدہ طور پر ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ اس معاہدے کے بارے میں عدالت کو آگاہ کریں گے

بحریہ ٹاؤن مقدمے کا نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ سے موصول شدہ رقم سے کیا تعلق ہے؟

اگست 2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے مشکوک مالی معاملات کے تناظر میں اپنی تحقیقات کے بعد بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض حسین کے خاندان کے برطانیہ میں کچھ بینک اکاؤئنٹس اور اثاثے منجمند کر دئیے تھے۔

جس کے بعد ملک ریاض حسین کے خاندان نے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی سے عدالت کے باہر معاملات طے کرنے کی حامی بھری اور پھر 19 کروڑ برطانوی پاؤنڈ کی رقم طے پائی۔

دسمبر 2019 میں اس وقت کے ایسٹ ریکوری یونٹ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کسی فرد نہیں بلکہ فنڈز کے بارے میں تحقیقات کی گئی تھیں اور اس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ برطانیہ فوراً یہ 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم حکومت پاکستان کو منتقل کرے گا جس کو انہوں نے ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا۔

عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ مقدمہ

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ مقدمے کا تعلق بھی اسی 19 کروڑ برطانوی پاؤنڈ کی موصول شدہ رقم سے ہے جس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ دونوں ملزمان ہیں۔

14 جون 2022 کو اس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے موصول شدہ رقم کو بحریہ ٹاؤن کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے میں ایڈجسٹ کرنے کے لئے 5 ارب روپے اور القادر ٹرسٹ کے نام پر سینکڑون ایکڑ اراضی لی۔

اسی بنیاد پر اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام کے تحت سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف نیب نے القادر ٹرسٹ کرپشن ریفرنس بنایا اور 9 مئی کو عمران خان صاحب کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد ملک میں امن و امان کے مسائل پیدا ہو گئے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp