لاہور پولیس کے سابق انکاؤنٹر اسپیشلسٹ عابد باکسر کو فرار ہونے کے بعد دوبارہ قصور سے گرفتار کر لیا گیا ہے، مقامی پولیس مساجد میں اعلانات کر رہی ہے کہ جو لوگ عابد باکسر کے مظالم سے متاثرہ ہیں وہ سامنے آئیں اور ان کے خلاف مقدمات درج کروائیں۔
واضع رہے کہ چند روز قبل پولیس نے عابد باکسر کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تاہم حکام کے دعوے کے مطابق 13 اکتوبر کو سابق انسپکٹر مبینہ طور پر پولیس کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
لاہور پولیس نے کہا تھا کہ عابد باکسر سرکاری رائفلیں چھین کر 3 اشتہاری ملزمان کے ساتھ فرارہو گیا تھا اور ملزم گرفتاری کے بعد پولیس کو للکار رہا تھا۔
سی آئی اے پولیس کے ترجمان کے مطابق عابد باکسر کو گزشتہ رات ایک کارروائی کے دوران دوبارہ قصور سے گرفتار کرلیا گیا اور تفتیش کے لیے انوسٹی گیشن ونگ کے حوالہ کردیا گیا۔
یہ بھی بڑھیں: سابق پولیس انسپکٹر اور انکاؤنٹر اسپیشلسٹ عابد باکسر پر ایک اور مقدمہ درج
ترجمان نے بتایا کہ سابق انسپکٹر کو سی آئی اے سول لائنز کی ٹیم نے گرفتار کیا، ان کے خلاف 3 تھانوں میں دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔عابد باکسر کی گرفتاری کے لیے لاہور پولیس کافی متحرک رہی اور ان کے خلاف مقدمات درج کروانے کے لیے مساجد میں اعلانات بھی کرائے گئے۔
پولیس کی جانب سے کرائے گئے اعلانات میں کہا گیا کہ ’ متاثرہ شہری مقدمات کے لیے پولیس سے رابطہ کریں ‘۔ جس کسی کے ساتھ عابد باکسر نے زیادتی کی ہے وہ فوری متعلقہ تھانے میں رپورٹ درج کروائے، پولیس اس کو قانونی تحفظ بھی دے گی۔ ان اعلانات کے بعد انجمن تاجران کی طرف سے پولیس کو عابد باکسر کو گرفتار کرنے پر خراج تحسین بھی پیش کیا گیا ۔آج انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں پیش بھی کیا گیا ۔
7 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
انسداد دہشت گردی عدالت کی ایڈمن جج عبہر گل خان نے ملزم عابد باکسر کے خلاف سرکاری رائفل چھیننے، کارِ سرکار میں مداخلت اور پولیس حراست سے بھاگنے کے مقدمہ کی سماعت کی۔ پولیس نے مقدمہ میں ملوث ملزم عابد باکسر کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا اور ملزم سے تفتیش کے لیے30 دن کا جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی گئی۔
عدالت نے پولیس کے 30 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ملزم عابد باکسر کا 7 روز کے لیے جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔ عدالت نے ملزم کو دوبارہ 26 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر تفتیشی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔
عابد، باکسر سے انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کیسے بنا
عابد حسین قریشی ولد غلام حسین قریشی پولیس میں کھیلوں کے کوٹے پر بھرتی ہوا، جس کا ابتدائی عہدہ سب انسپکٹر تھا۔ اسپورٹس کے کوٹے پر بھرتی ہونے کی وجہ سے پنجاب پولیس کے اہلکار اسے ’عابد باکسر‘ کہنے لگے۔
انسپکٹر عابد باکسر بھی پولیس فورس جوائن کرنے کے بعد اعلیٰ افسران اور حکومتی شخصیات کا منظور نظر بننے کی کوششوں میں لگ گیا، 2 دہائی قبل اس پولیس افسر نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تو جلد ہی ’انکاؤنٹرز‘ میں ملزمان کو مارنے کی وجہ سے پورے صوبے میں مشہور ہوگیا۔
جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں عابد باکسر نے صوبے کی اعلیٰ سیاسی اور سرکاری شخصیات سے بہت جلد اچھے تعلقات استوار کر لیے، تعلقات بننے کے ساتھ اسے تھپکی بھی ملنے لگی جبکہ لاہور شہر کے جرائم پیشہ گروہ بھی اس کے رابطوں میں آنے لگے۔
عابد باکسر پر الزام ہے کہ اسے اعلیٰ شخصیات کی سرپرستی حاصل تھی اسی لیے جرائم پیشہ افراد سے مراسم بنانے پر حکومت کی جانب سے بھی روک ٹوک نہیں کی گئی۔ انسپکٹر عابد کے کیے گئے پولیس مقابلوں میں درجنوں افراد مارے گئے، بعد میں ان پولیس مقابلوں پر سوالات اٹھے تو ان کو جعلی انکاؤنٹرز قرار دیا گیا۔
عابد باکسر نے اپنے بیان میں بھی اعتراف کیا کہ ان کے پولیس مقابلے متنازع تھے، ساتھ ہی یہ الزام بھی عائد کیا کہ یہ مقابلے اعلیٰ صوبائی سیاسی شخصیات کے حکم پر کیے گئے۔پولیس افسران بتاتے ہیں کہ عابد باکسر نے 6 سال کے دوران کم از کم 65 پولیس مقابلوں میں حصّہ لیا، جن میں درجنوں افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
زمینوں پر قبضے اور اداکارہ پر تشدد کا الزام
جعلی مقابلوں میں اپنے سرپرستوں کے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے ساتھ ساتھ انسپکٹر عابد باکسر نے شوبز انڈسٹری پر بھی اپنی دھاک جمائی، جس کے بعد لاہور کی شوبز انڈسٹری کے کئی بڑے نام عابد باکسر کے دوستوں کی فہرست میں شامل ہوئے۔لاہور کی معروف اسٹیج ڈانسر نرگس بھی عابد باکسر کے دوستوں میں شامل تھیں۔
ابتدا میں عابد باکسر اور نرگس کے درمیان دوستی تھی، مگر پھر کسی بات پر اختلافات ہوئے تو اس پولیس افسر نے نرگس کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا، حتیٰ کے سر کے بال اور بھنویں تیز دھار آلے سے صاف کردیں، جس کا مقدمہ عابد باکسر اور ساتھیوں کے خلاف 28 مارچ 2002 کو جوہر ٹاؤن تھانے میں درج ہوا۔
نرگس پر تشدد کے بعد عابد باکسر فلم انڈسٹری کے لیے ایک ڈان کی حیثیت اختیار کرگیا اور انڈسٹری میں کوئی بھی عابد باکسر کے خلاف بولنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ عابد باکسر پر لاہور میں زمینوں اور بنگلوں پر قبضے کے الزامات بھی سامنے آئے، مبینہ طور پر ان سے تعلقات رکھنے والے جرائم پیشہ گروہوں میں لاہور کے مشہور قبضہ گروپ بھی شامل تھے، جن میں ملک احسان گروپ، گوگی بٹ گروپ اور طیفی بٹ گروپ کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ عابد باکسر کے پاکستان یا بیرون ملک رہائش سمیت دیگر اخراجات یہی گروہ برداشت کرتے تھے۔
عابد باکسر کے سر کی قمیت 3 لاکھ روپے مقرر
انسپکٹر عابد باکسر پر قتل، اقدام قتل سمیت کئی مقدمات قائم ہوچکے تھے، مگر حکومت میں اعلیٰ سطح پر تعلقات ہونے کی وجہ سے وہ ہر قانون اور قاعدے سے بالاتر تھا۔اس بے لگام پولیس افسر کا زوال اس وقت شروع ہوا، جب اس نے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ مل کر بریگیڈیئر(ریٹائرڈ ) محمود شریف کی بیوہ نسیم شریف کو قتل اور مقتولہ کی جائیداد پر جعلی دستاویزات کے ذریعے قبضہ کرنے کی کوشش کی، اس کا الزام عابد باکسر اور ان کے بھائیوں پر عائد کیا گیا۔
اس کیس میں 20 جولائی 2011 کو عدالت نے عابد باکسر کے 2 سگے بھائیوں علی عباس اور ندیم عباس کو سزائے موت سنائی تھی جبکہ مقدمے میں اغوا اور قتل میں ان کا ساتھ دینے والے نامزد مبینہ ملزم عابد باکسر کو مفرور قرار دیا گیا ، جس کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتار جاری ہوئے تھے۔
عابد باکسر پر قتل کا ایک اور مقدمہ نمبر 658 تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں درج کیا گیا، جس میں سینما منیجر کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
سینما مالک کے بیٹے سید اقبال کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں مدعی نے الزام لگایا تھا کہ عابد باکسر نے بھتہ طلب کیا تھا، جو نہ دینے پر ان کے والد کو قتل کر دیا۔جعلی’انکاؤنٹرز‘ میں لوگوں کو مارنے سمیت دیگر جرائم سامنے آنے کے بعد انسپکٹر عابد باکسر ملک سے فرار ہوگیا، 2007 کے بعد مبینہ طور پر وہ کبھی پاکستان نہیں آیا۔
ستمبر 2015 میں پنجاب حکومت کی جانب سے عابد باکسر کے سر کی قیمت 3 لاکھ روپے مقرر کی گئی۔عابد باکسر کے حوالے سے مختلف اطلاعات آتی رہی ہیں کہ وہ کینیا ، ہانگ کانگ، دبئی یا مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں مفرور ہو گیا ہے، مختلف مواقعوں پر عابد باکسر میڈیا پر بھی سامنے آتا رہا اور حکومتی شخصیات کے ساتھ ساتھ پولیس افسران پر الزامات عائد کرتا رہا اور ساتھ ہی دعویٰ کرتا رہا کہ کوئی بھی پولیس مقابلہ صوبے کے انتظامی سربراہ کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
عابد باکسر کی اہلیہ الزامات کی تردید کرتی ہیں
عابد باکسر کی اہلیہ البتہ ان الزامات کی تردید کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم گھر میں موجود تھے جب 4 پولیس افسران جن میں محمد علی بٹ، راشد امین بٹ، ماجد بشیر اور میاں قدیر 50 یا 60 لوگوں کے ساتھ حملہ آور ہوئے اور میرے شوہر پر تشدد کرتے رہے اور مجھ پر بھی تشدد کیا۔اس کے بعد مارتے ہوئے زخمی حالت میں لے کر گئے۔
میرے شوہر کو سی آئی اے پولیس میری آنکھوں کے سامنے لے کر گئی، وہ انہیں مارنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔’میرے شوہر پر پہلے اور اب جو الزمات لگائے جارہے ہیں وہ بالکل بے بنیاد اور من گھڑت ہیں ۔‘
اہم بات یہ ہےکہ جن افسران پر ان کی اہلیہ الزام عائد کر رہی ہیں، ان میں سے عابد باکسر نے راشد امین بٹ پر پہلے ہی مقدمہ درج کروا رکھا ہے۔ جبکہ ماجد بشیر اداکارہ نرگس کے شوہر ہیں۔