بجلی کے بلوں سے بچنے کا موقع: پاکستان میں سولر پینل سستی ترین سطح پر

جمعرات 19 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اگر آپ نے بجلی کے بلوں سے تنگ آکر کبھی شمسی توانائی سے مدد لینے کا سوچا ہے تو آج اس پر عملدرآمد کا وقت آ گیا ہے کیونکہ سولر پینل پاکستان میں لاکھوں روپے کمی کے ساتھ سستی ترین سطح پر آ چکے ہیں اور کم سے کم لاگت کا سولر سسٹم ڈیڑھ لاکھ روپے تک بھی دستیاب ہے۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سولر سسٹم کے کاروبار سے منسلک افراد نے بتایا کہ 3 وجوہات سے پاکستان میں اس وقت سولر سسٹم سستی ترین سطح پر آ گئے ہیں اور قیمتوں میں لاکھوں روپے کمی ہوئی ہے۔

ڈیڑھ لاکھ میں سستا ترین سولر

سولر سسٹم لگانے والی ایک کمپنی کے مالک ریحان احمد نے وی نیوز کو بتایا کہ اس وقت سستا ترین سولر سسٹم ڈیڑھ کلو واٹ (1500 واٹ) کا ڈیڑھ سے 2 لاکھ روپے میں بھی لگ سکتا ہے مگر لاگت کم کرنے کے لیے اس پر ڈی سی کرنٹ سسٹم پر چلنے والے پنکھے اور بلب لگانے پڑتے ہیں جو پاکستان میں باآسانی دستیاب ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سسٹم پر 2 سے 4 پنکھے اور 5 سے 6 لائٹس 24 گھنٹے بیٹری کے ساتھ چل سکتے ہیں اور ڈی سی سسٹم کے آلات کی وجہ سے انویرٹر کی ضرورت نہیں ہو گی جس سے پیسوں کی بچت ہو گی ورنہ عام پنکھوں اور لائٹس کے ساتھ 60 سے 80 ہزار کا چھوٹا انویرٹر بھی لگانا ہو گا تاکہ ڈی سی کرنٹ کو اے سی کرنٹ میں بدل سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ 3 کلو واٹ کا سسٹم بیٹری کے ساتھ 6 لاکھ تک لگ جاتا ہے کیونکہ انویرٹر 5 کلو واٹ والا ہی لگے گا تاہم بغیر بیٹری کے 3 کلو واٹ کا آن گریڈ سسٹم 5 سے ساڑھے 5 لاکھ روپے تک پڑے گا۔

نیٹ میٹرنگ کے ساتھ منسلک 5 کلو واٹ کا سسٹم ہی سب کو سوٹ کرتا ہے

تاہم ان کا کہنا تھا کہ واپڈا کے گرڈ سسٹم سے نیٹ میٹرنگ کے ساتھ منسلک 5 کلو واٹ کا سسٹم ہی سب کو سوٹ کرتا ہے کیونکہ زیادہ تر بجلی کمپنیاں 5 کلو واٹ سے کم سسٹم کو قبول نہیں کرتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 5 کلو واٹ کے آن گریڈ (بغیر بیٹری) کا ریٹ اب تقریباً ساڑھے 7 لاکھ روپے ہے جو گزشتہ سال نومبر میں تقریباً ساڑھے 10 سے 11 لاکھ کا ہوتا تھا۔ یعنی قیمت میں 4 سے ساڑھے 4 لاکھ روپے کی کمی ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ ایک اے سی تقریباً 2 کلو واٹ کا ہوتا ہے۔ ایک اچھا پنکھا تقریباً 100 واٹ سے کم ہوتا ہے۔ اس طرح 5 کلوواٹ پر اے سی کے علاوہ 5 پنکھے چلیں گے، تقریباً 20 لائٹس، ایک فریج اور استری وغیرہ بھی چل سکتے ہیں۔

اسی طرح 8 کلو واٹ کا سسٹم اب تقریباً 11 لاکھ کا لگ سکتا ہے جبکہ پہلے یہ سسٹم تقریباً 16 سے 17 لاکھ روپے تک کا لگتا تھا۔

ریحان احمد کے مطابق 10 کلو واٹ کا آن گریڈ سسٹم اب ساڑھے 13 سے 14 لاکھ کا لگ سکتا ہے جبکہ پہلے اس کی قیمت ساڑھے 21 لاکھ تک ہوتی تھی۔

قیمتیں کیوں کم ہوئیں؟

سولر سسٹم امپورٹ سے منسلک مسعود خان کے مطابق قیمتوں میں کمی کی تین چار وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ ریٹ انٹرنیشنل سطح پر کم ہوا ہے، پہلے چین میں سولر پینل 23 سینٹ فی واٹ تھا، اب 8 سینٹ کمی کے ساتھ ریٹ 15 سینٹ فی واٹ تک پہنچ گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس طرح پاکستان میں سولر پینل اب تقریباً 33 روپے فی واٹ کم ہو گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت کم ہونے سے بھی سولر کی قیمت میں کمی ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ گزشتہ سال پاکستان میں امپورٹ پر پابندی تھی اور مارکیٹ میں شارٹیج بھی تھی تو قیمتیں مصنوعی طور پر زیادہ ہو گئی تھیں ۔ اب شارٹیج ختم ہونے کے بعد سپلائی زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی قیمتیں نیچے آ گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ریٹ میں اب عام کمپنی (جے اے وغیرہ) کا سولر پینل تقریباً 57، 58 روپے فی واٹ پڑتا ہے جبکہ سب سے اچھی کمپنی لونجی کا پینل 63 روپے فی واٹ پڑتا ہے۔

جبکہ گزشتہ سال نومبر میں جب امپورٹس رکی ہوئی تھیں تو لانجی کا پینل 130 روپے فی واٹ تک چلا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سیزن آف ہو گیا ہے کیونکہ گرمیوں میں ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے اس لیے سردیوں میں ریٹ کم ہو جاتا ہے۔

بینکوں کی جانب سے سولر کے لیے قرضے

وی نیوز کو صارفین نے بتایا کہ اب بینکوں کی جانب سے بھی سولر سسٹم لگوانے کے لیے قرض فراہم کیا جا رہا ہے۔

ایک صارف شاہد عباسی کے مطابق بینک کے نمائندے نے انہیں کال کر کے کہا ہے کہ آ پ کو پلان بھیجا ہے جس کے مطابق رہائشی صارفین کے لیے 3 کلو واٹ سے 30 کلو واٹ تک سولر پینل لگوانے کے لیے آسان قرض فراہم کیا جائے گا اور کل لاگت کی 80 فیصد رقم قرض کی شکل میں بینک فراہم کرے گا۔ قرض 3 سے 10 سال کی اقساط میں دیا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے بینک صارفین کو سولر کمپنیوں کی لسٹ بھی فراہم کر رہے ہیں جہاں سے ریٹس اور آفرز لی جا سکتی ہیں۔

بینک کس شرح منافع پر قرض فراہم کر رہے ہیں؟

حکومت کی جانب سے بینکوں کو سبسڈائزڈ نرخوں پر قرض دینے کے لیے لمٹس دی گئی تھیں جو اکثر بینک استعمال کر چکے ہیں۔ اس کے بعد گزشتہ ڈیڑھ برس سے حکومت نے سولر کے رعایتی قرضوں کے لیے بینکوں کو نئی حد جاری نہیں کی ہے۔

اس کے نتیجے میں بینک پاکستانی صارفین کو موجودہ شرح سود کے ساتھ اڑھائی یا 3 فیصد اضافی کے عوض قرض دے رہے ہیں۔ کچھ بینک 4 سال کے لیے فائنانس کی گئی رقم پر ابتدائی 3 برس کے لیے 20.3 فیصد شرح منافع جب کہ چوتھے برس کے لیے کائبور کے ساتھ 3 فیصد اضافی پر بھی قرض فراہم کر رہے ہیں۔

بینکوں کی جانب سے صارفین کو یہ سہولت بھی دی جاتی ہے کہ وہ ماہانہ اقساط ادا کرتے ہوئے اضافی رقم ادا کر کے طے شدہ مدت سے پہلے اپنا قرض لوٹا دیں۔ پے آف کی صورت میں صارف کو منافع کی وہ زیادہ رقم ادا نہیں کرنا پڑتی جو ادائیگی کے لیے محض ماہانہ قسطوں پر انحصار کی صورت میں واجب الادا ہوتی ہے۔

بجلی کی مسلسل بڑھتی قیمتوں اور عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ پاکستان میں بلوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

شمسی توانائی کے شعبے سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ اگر حکومت رعایتی نرخوں پر قرض کی فراہمی کا سلسلہ بحال کرے اور سولر سسٹم کی پیداواری صلاحیت حاصل کرنے پر توجہ دے تو ملک کو ایندھن درآمد کرنے کے بھاری امپورٹ بل سے نجات مل سکتی ہے۔ اس سے تجارتی خسارے میں دیرپا بنیادوں پر کمی ہو گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp