سابق وزیراعظم و قائد پاکستان مسلم لیگ ن میاں نواز شریف21 اکتوبر کی دوپہر کو ’اُمید پاکستان‘ نامی خصوصی پرواز کے ذریعے وطن واپس لوٹیں گے۔ گزشتہ ماہ ستمبر میں ان کی واپسی کے حوالے سے ن لیگ کی سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے پارٹی کے نئے نعرے کا اعلان کیا تھا۔
مریم نواز نے ن لیگ کی طلبہ تنظیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کی واپسی پر پوری مسلم لیگ ن کا ایک ہی نعرہ ہو گا ’امید سے یقین تک، پاک سر زمین تک‘۔
مزید پڑھیں
آمدہ انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے ن لیگ کا یہ نعرہ کتنا مقبول ہو سکتا ہے، اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ البتہ 2017 میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور واپس جاتے ہوئے نواز شریف نے ’مجھے کیوں نکالا‘ کا نعرہ لگایا تھا جسے خاصی مقبولیت بھی ملی تھی۔ ذیل میں نواز شریف کی جانب سے اپنے سیاسی سفر کے دوران لگائے گئے کچھ مشہور نعروں کا ذکر کیا گیا ہے۔
جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ
ضیاالحق کے آمرانہ دور کے خاتمے کے بعد پاکستان میں عام انتخابات نومبر 1988 میں منعقد کیے گئے۔ 16 نومبر 1988 کو قومی اسمبلی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اسلامی جمہوری اتحاد کو شکست سے دوچار کیا۔ اس زمانے میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات قومی اسمبلی کے بعد ہوتے تھے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کو فکر لاحق تھی کہ قومی اسمبلی کی طرح انہیں صوبائی اسمبلیوں میں بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
انتخابی مہم کے دوران روزنامہ مشرق اور نوائے وقت (11 نومبر 1988) نے بے نظیر بھٹو سے ایک بیان منسوب کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک پنجابی کو اپنا لیڈر کیسے مان سکتی ہیں۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ 1985 میں پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد نواز شریف تاحال اسی عہدے پر فائز تھے۔ 19 نومبر کو پولنگ سے قبل ہی مسلم لیگ (جو آئی جے آئی میں سب سے بڑی جماعت تھی) نے صوبائی کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے دیواروں پر ’جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘ کا نعرہ لکھوا دیا۔
گردش ایام کے سبب یہ نعرے دیواروں سے تو کچھ ہی عرصے میں مٹ گئے لیکن سیاسی سفر میں آج تک نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت کا پیچھا کر رہے ہیں۔
میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا
جنرل ضیاالحق کی طیارہ حادثے میں موت کے بعد چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان صدر مملکت بنے تھے۔ غلام اسحاق خان نےضیاالحق کی جانشینی کا حق ادا کرتے ہوئے 2 حکومتوں کو گھر بھیجا تھا۔ انہوں نے 1988 کے انتخابات جیتنے والی بے نظیر بھٹو کو وزارت عظمیٰ سے نکالا اور پھر 1990 کے انتخابات جیت کر حکومت بنانے والے اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ نواز شریف کو بھی اپریل 1993 میں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹائے جانے سے محض ایک روز قبل نواز شریف نے اپنے خطاب میں ایوان صدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’ڈکٹیشن نہیں لیں گے‘۔ اگلے ہی روز صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت کو گھر بھیج دیا تھا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اگلے ہی ہفتے نواز شریف نے اپنی حکومت کے خاتمے کے اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ ایک ماہ کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے نواز شریف کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عہدے پر واپس بحال کر دیا تھا۔
قرض اتارو، ملک سنوارو
فروری 1997 میں دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد نواز شریف نے بڑھتے ملکی قرضوں سے چھٹکارا پانے کے لیے قوم سے مدد کی اپیل کی۔ ’قرض اتارو ملک سنوارو‘ کے نام سے شروع کی گئی اس مہم میں عوام سے ملکی قرضہ اتارنے کے لیے ڈونیشن کی مد میں رقوم دینے کی اپیل کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ 2 برس کے لیے قرض حسنہ اور ٹرم ڈیپازٹ دینے کا آپشن بھی دیا گیا تھا۔ اس مہم کے آغاز میں پہلے برس تو کچھ جوش و خروش دکھائی دیا مگر اگلے برسوں میں یہ جوش و خروش بھی ٹھنڈا ہو گیا اور کوئی بڑی رقم اکٹھی نہ ہو سکی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق اس ساری مہم کے نتیجے میں ایک اعشاریہ 2 ارب کی رقم مقامی کرنسی میں جب کہ 17 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز غیر ملکی کرنسی کی صورت میں جمع ہوئے تھے۔
مجھے کیوں نکالا؟
28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5 رکنی بینچ نے مشہور پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کر دیا۔ چند روز کے بعد 9 اگست 2017 کو نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور واپسی کے لیے جی ٹی روڈ پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اگلے روز یعنی 10 اگست کو جہلم پہنچ کر انہوں نے اپنی تقریر میں عدلیہ کو ماضی میں آمریت کا ساتھ دینے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
اسی دوران انہوں نے آمریت اور اپنے ساتھ ہونے والے مختلف سلوک پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’کیا میں نے کسی ملکی امانت میں خیانت کی تھی؟ اگر نہیں تو پھر مجھے کیوں نکالا؟‘۔ نواز شریف نے یہ سوال جی ٹی روڈ کے سیاسی سفر میں کئی مرتبہ دہرایا جس کے بعد سوشل میڈیا اور مخالفین کی ٹرولنگ کے باعث خاصا مقبول بھی ہوا۔
ووٹ کو عزت دو
وزارت عظمیٰ سے بے دخلی کے بعد جی ٹی روڈ کے سفر میں جہاں نواز شریف نے ’مجھے کیوں نکالا‘ کا سوال اُٹھایا وہیں مستقبل کی سیاسی سمت کا فیصلہ کرتے ہوئے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بھی بلند کیا۔ جی ٹی روڈ کے سفر میں نواز شریف آگے بڑھے تو انہوں نے لالہ موسیٰ میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’20 کروڑ عوام کے ووٹ کی عزت ہے یا نہیں؟‘۔
اس سیاسی سفر کے بعد بھی جلسوں اور اجتماعات میں نوازشریف اور مریم نواز نے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے ووٹ کی عزت بحال کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ 2018 کے انتخابات میں جب نوازشریف اور مریم نواز جیل میں تھے ن لیگ کی انتخابی مہم اسی نعرے کی بنیاد پر چلائی گئی۔ گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف فتح یاب ہوئی اور کرپشن سے پاک پاکستان کا نعرہ ووٹ کی عزت پر بھاری آگیا۔ اس شکست کی قیمت ادا کرتے ہوئے ن لیگی قیادت کو وقتاً فوقتاً جیل کی راہیں دیکھنا پڑیں۔
عمران خان کا تختہ الٹنے کا سب سے زیادہ سیاسی نقصان ن لیگ کو ہوا
حالات کا رُخ اس وقت تبدیل ہوا جب اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت کا تختہ اُلٹا گیا۔ شہباز شریف نے باقی ماندہ عرصے میں حکومت کرتے ہوئے ووٹ کو عزت کے بیانیے سے 180 کے زاویے کا یوٹرن لے لیا۔ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کی وجہ سے عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا سب سے زیادہ نقصان اتحادی حکومت کی بڑی شریک جماعت مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کو پہنچا۔
اب اگلے عام انتخابات کی مہم چلانے کے لیے نوازشریف خود میدان میں اترنے کے لیے تیار ہیں۔ اس الیکشن مہم میں مریم نواز کے اعلان کیے ہوئے نعرے ’امید سے یقین تک، پاک سر زمین تک‘ کو کتنی پذیرائی ملتی ہے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔