کیا نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے بن پائے گی؟

جمعہ 20 اکتوبر 2023
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نواز شریف کی وطن واپسی نے ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل کردیا ہے۔ نیوز چینلز، سوشل میڈیا اور تقاریر میں نواز شریف ہی موضوع بن چکے ہیں۔ بحث و مباحثوں کے ساتھ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کے ذریعے خود ساختہ جلا وطنی ترک کرکے وطن واپس آ رہے ہیں؟ کیا وہ اپنی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این )کو درپیش مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ ان کے پاس ایسا کیا فارمولا ہے کہ وہ ملک کو درپیش معاشی اور سیاسی دلدل سے سیاسی طور پر باہر نکال سکیں گے؟

اگرچہ وہ اپنے خلاف تمام کیسز کو ’جعلی‘ اور ’من گھڑت‘ قرار دیتے ہیں مگر کیا گارنٹی ہے کہ پاکستان پہنچتے ہی ایک سزا یافتہ مبینہ ’مجرم‘ ہونے کے ناطے وہ عدالتوں سے سنائی گئی تمام سزاؤں سے بری ہوجائیں گے؟ اور سب سے اہم یہ کہ اسٹیبلشمنٹ، جسے وہ اپنی نااہلی، حکومت کے خاتمے اور تمام سزاؤں کا ذمہ دار قرار دیتے آئے ہیں، کے ساتھ چل پائیں گے؟۔

 زیادہ ترقانون دانوں کی رائے یہی ہے کہ ایک مجرم کے لیے عدالتوں سے اپنے تمام کیسز ختم کروا کر بری ہونے میں خاصا وقت درکار ہو گا، جس کا مطلب ہے کہ وہ راہداری ضمانت حاصل کرنے کے بعد جیل جائیں گے اور ان کے لیے مقدمات سے بریت اتنی بھی آسان نہیں ہوگی۔ اگر میاں نواز شریف جیل نہیں جاتے یا جیل جانے کے فوری بعد رہا ہو جاتے ہیں تو لوگ عدالتوں پر بھی طرح طرح کے سوالات اٹھائیں گے۔

حال ہی میں عمران خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرکے مختصر عرصے کے لیے اقتدار کا مزہ چکھنے اور شدید کڑوے معاشی فیصلوں کے ‘ثمرات’ سے بہرہ مند ہونے کے بعد عوام کے غیض و غضب کا شکار ہونے والی پاکستان مسلم لیگ ن ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔

 لاکھ صفائیاں پیش کرنے کے باوجود نواز لیگ کے رہنما مطمئن نہیں ہو سکے اور پارٹی کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ اور مقبولیت کی بحالی کے لیے نواز شریف کی واپسی انتہائی اہم قرار دی جا رہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی میں نوازشریف کے سوا کوئی ایسا رہنما نہیں جو ملکی حالات کے پیش نظر عوام کو کوئی نیا بیانیہ دے سکے۔

اپنی آمد کے اعلان کے فوری بعد نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ دینے کی کوشش کی تو چھوٹے بھائی شہباز شریف الٹے پاؤں لندن واپس روانہ ہوگئے اور بڑے بھائی سے درخواست کی کہ خدارا ملک کے ویسے حالات نہیں جیسے آپ چھوڑ آئے تھے اور سب بڑی سیاسی جماعتیں بچی کچھی سیاسی ساکھ سے بھی محروم ہو رہی ہیں۔یہ بیانیہ پھر دیکھ لیں گے فی الحال آپ واپسی کا سفر آسان کریں۔ اس ملاقات کے بعد مسلم لیگ نواز کے تمام بڑے ’شعلہ بیاں‘ رہنماؤں نے خاموشی اختیار کرلی۔

پارٹی کے پاس اب کیا بیانیہ بچا ہے؟ نوازشریف واپس آکر معاشی بحالی کا ایجنڈا دیں گے۔ ملک کو تمام بحرانوں سے نکالیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب کوششیں تو تب ہوں گی جب وہ واپس اقتدار میں آئیں گے تو تب۔ تاحال عوام تذبذب اور بے یقینی کا شکار ہیں کہ جنوری میں الیکشن بھی ہوں گے یا نہیں؟۔

اگر الیکشن ہو بھی جائیں تو نوازشریف وزیراعظم بن سکیں گے یا نہیں؟۔ اگر نواز شریف وزیر اعظم بن بھی جائیں تو جمہوری حکومت کے پاس کتنے اختیارات ہوں گے کہ وہ معیشت، تجارت، خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی کے معاملات پر آزادانہ فیصلے کرسکیں۔

دوسری جانب کئی دہائیوں سے پنجاب کو اپنا سیاسی قلعہ بنا کر اقتدار حاصل کرنے والی مسلم لیگ ن کو پاکستان تحریک انصاف کی صورت میں سب سے بڑا چیلینج درپیش ہے۔

ادھر عمران خان کی حکومت کے خاتمے، اس کے بعد ان کے اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے گٹھ جوڑ پر تابڑ توڑ حملے اور پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ ہونے والے ’ظلم‘ اور قیدوبند کی صعوبتوں نے پاکستان تحریک انصاف میں نئی روح پھونک دی ہے۔

اداروں کی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان ڈیموکریٹک آلائنس (پی ڈی ایم )کی تمام جماعتیں پاکستان تحریک انصاف سے خوف زدہ دکھائی دیتی ہیں۔

دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی محسوس کررہی ہے کہ اس کے ساتھ کوئی انہونی ہوگئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک آصف علی زرداری انتہائی پراعتماد اور مطمئن ہو کر اگلی مرتبہ اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنتا دیکھ رہے تھے۔

آج وہ نواز شریف کی واپسی کو اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن موجودہ معاشی اور امن وامان کی خراب صورتحال میں الیکشن سے انکاری ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز بھی ان کا ساتھ دے۔

ادھر پاکستان مسلم لیگ نواز بھی جنوری میں الیکشن کے انعقاد پر پرجوش دکھائی نہیں دیتی۔ مگر پیپلز پارٹی نے شکایت کی ہے کہ سندھ کے ساتھ غیرمنصافانہ سلوک کیا جا رہا ہے جس کے بعد انہوں نے جنوری میں ہی الیکشن کے انعقاد پر زور دینا شروع کردیا ہے۔

الیکشن سے بیزار، مہنگائی سے پریشان حال عوام کو بھی نواز شریف کی واپسی سے کوئی زیادہ بڑی اُمیدیں وابستہ نہیں ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور مغربی سرحدوں پر امن امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے عوام کو تقریباً الیکشن سے لاتعلق کردیاہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp