سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس سماعت کے لیے مقرر، فریقین کو نوٹسزجاری

جمعہ 20 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت 23 اکتوبرکو سماعت کے لیے مقرر کر دی، رجسٹرار آفس نے تمام فریقین کو نوٹسز بھی جاری کر دیے۔

جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں قائم 5 رکنی لارجر بینچ 23 اکتوبر کو 11:30 بجے سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں کیس کی گزشتہ سماعت 3 اگست کو ہوئی تھی، اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 21 جولائی کو ہدایات جاری کی تھیں کہ کسی بھی ملزم کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل سپریم کورٹ کو آگاہ کئے بغیرشروع نہ کیا جائے، حکم کی خلاف ورزی کرنے پر ذمہ داروں کو طلب کیا جائے گا اور کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

3 اگست کی سماعت کا تحریری حکم نامہ

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے 4 اگست کو 2 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کیا گیا، جس کے مطابق اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ متعلقہ حکام کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اپیل کا حق دینے کے لیے سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔

حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ عدالت کے حکم کے بغیر کسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو گا۔ جس پر عدالت کو اٹارنی جنرل کی اس یقین دہانی پر مکمل اعتماد ہے۔

حکم نامے میں بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع کرنے سے پہلے عدالت کو آگاہ کریں گے جب کہ سپریم کورٹ فریقین کو سننے کے بعد مناسب آرڈر جاری کرے گی۔ کیس کی اگلی سماعت بینچ کی دستیابی پر مقرر کی جائے گی۔

21 جولائی کی سماعت کا حکمنامہ

21 جولائی کی سماعت کے تحریری حکمنامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے اپیل کا حق دینے کے معاملے پر وقت مانگا ہے، اٹارنی جنرل کو ہدایات لینے کے لیے وقت دیا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں عدالت کو یقین دہانیاں کروائیں، اٹارنی جنرل کے کیس کے میرٹس پر دلائل جاری ہیں۔

حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی ہے کہ ابھی تک زیر حراست کسی شہری پر سزائے موت یا عمر قید کی دفعہ نہیں لگائی۔
اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ آج تک کسی زیر حراست شہری کا ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوا، نیز یہ کہ عدالت کو پیشگی بتائے بغیر ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوگا۔

عدالتی حکمنامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دلایا ہے کہ دوران سماعت ملزم شہریوں کے اہلخانہ اور قانونی ٹیم موجود ہوں گے، فوجی عدالت میں عام کورٹس کی ہی طرح قانون کے مطابق شواہد ریکارڈ کیے جائیں گے۔

اٹارنی جنرل نے یقین دلایا ملٹری کورٹس کے فیصلے میں تفصیلی وجوہات بھی دی جائیں گی۔

آرمی ایکٹ ہے کیا اور مقدمات کیسے چلائے جاتے ہیں؟

پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی اہلکاروں کے خلاف ٹرائل عمل میں لایا جاتا ہے تاہم اس ایکٹ میں کچھ شقیں ایسی بھی موجود ہیں جن کے تحت سویلینز کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

آرمی ایکٹ کے تحت کام کرنے والی فوجی عدالتیں جی ایچ کیو ایجیوٹنٹ جنرل (جیگ) برانچ کے زیرنگرانی کام کرتی ہیں اور اس عدالت کی سربراہی ایک حاضر سروس فوجی افسر کرتے ہیں۔

سنہ 2015 میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں قائم کرنے کے منظوری دی گئی تھی جن کا بنیادی مقصد دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث افراد کے خلاف تیزی سے ٹرائل کرنا اور سزائیں دلوانا تھا۔

کیا ماضی میں سویلینز کے خلاف فوجی عدالتیں فیصلہ دے چکی ہیں؟

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل (ر) انعام الرحیم نے بتایا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں جنرل باجوہ نے بطور آرمی چیف 25 ملزمان کو فوجی عدالتوں سے سزاؤں کی توثیق کی تھی۔

ان کے مطابق یہ وہ سویلینز تھے جن پر دہشت گردی نہیں بلکہ جاسوسی، قومی راز دشمن تک پہنچانے جیسے الزامات تھے، ان ملزمان کو کب اور کہاں سے گرفتار کیا گیا؟ اس حوالے سے کوئی معلومات سامنے نہیں لائی گئی تھیں۔

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے مطابق ان افراد میں 3 ملزمان کو سزائے موت اور دیگر کو مختلف سزائیں ہوئی تھیں جن کے خلاف ہائیکورٹس میں اب بھی اپیلیں موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چند سال قبل میجر جنرل ریٹائرڈ ظفر مہدی عسکری کے بیٹے حسن عسکری کو فوجی عدالت نے 5 برس قید با مشقت کی سزا سنائی تھی۔

حسن عسکری پر الزام تھا کہ انھوں نے 2020 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں مبینہ طور پر اُن کی مدت ملازمت میں توسیع ملنے اور فوج کی پالیسیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے کو کہا تھا۔

ان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے یہ خط دیگر جرنیلوں کو بھی ارسال کیے تھے جس کا مقصد فوج میں بغاوت کرانا تھا۔

کرنل ریٹرائرڈ انعام الرحیم کے مطابق اگرعمران خان کا اس کے تحت ٹرائل کیا جاتا ہے تو انہیں 7 سے 10 برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے جبکہ انہیں اس کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کا حق ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp