کاش پاکستانی ٹیم کی قسمت بھی میاں صاحب جیسی ہوتی

جمعہ 20 اکتوبر 2023
author image

مہوش بھٹی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پہلے میں اُن تمام حضرات سے جن کا نام اسامہ ہے، ہمدردی کا اظہار کرتی ہوں کیوں کہ ان کو اپنے ہمنام اسامہ کے کیچ چھوڑنے پر شائقین کی اجتماعی ناراضی کا سامان کرنا پڑا۔

خیر یہ کچھ نیا نہیں تھا، ہر بار جب بھی کوئی نیا کھلاڑی پہلا میچ کھیلتا ہے اور اس میں کارکردگی نہیں دکھا پاتا تو باقی کھلاڑی جو پچھلے 50 سال سے کوئی کارنامہ انجام نہیں دے رہے ہوتے، وہ ذمہ داری سے بری الزمہ ہوجاتے ہیں۔ آسان الفاظ میں اْس کا مطلب ہوتا ہے کہ ’جو کرا رہا ہے، وہ اسامہ کرا رہا ہے‘۔

شاداب کا اس ورلڈ کپ میں کچھ اچھا وقت نہیں چل رہا تھا تو عوام کی اور ہوسکتا ہے پاکستان کرکٹ مینیجمنٹ کی بھی پُرزور فرمائش پر اسامہ میر کو ٹیم میں شاداب کی جگہ شامل کیا گیا۔ پھر جیسے ہی اسامہ نے وہ قیمتی کیچ چھوڑا تو ہمیں ساتھ ہی شاداب یاد آنے لگا۔

یہ ایسے ہی ہے کہ جب میاں صاحب حکومت میں ہوتے ہیں تو ہمیں عمران خان یاد آنے لگتا ہے اور جب عمران خان حکومت میں ہو تو میاں صاحب یاد آنے لگتے ہیں، اور جب کوئی نہیں ہوتا تو ہم یہ کہہ کہ گزارا کر لیتے ہیں کہ ’مشرف کا دور اچھا تھا‘۔

اب اسامہ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ مجھے کیوں نکالا؟، لیکن وہ یہ ضرور شکوہ کر سکتے ہیں کے مجھے ٹیم میں کیوں ڈالا؟

لگ یہی رہا تھا کہ چونکہ میاں صاحب واپس آ رہے ہیں تو دودھ کی نہریں بہنیں لگ جائیں گی، معیشت خوشی کے مارے چھلانگیں لگانی شروع کر دے گی، ہر بچہ میاں صاحب کی فلائٹ سے پہلے ہی پی ایچ ڈی اسکالر بن جائے گا اور شاید انہی برکات کے پیش نظر پاکستان میچ جیت جائے گا۔

لیکن میاں صاحب نے یہ آس بھی توڑ دی۔ ہو سکتا ہے میاں صاحب یہ پڑھ کے بولنے پر مجبور ہوجائیں کہ ’آہو اے وی میرے تے پا دییو‘، لیکن ہم بھی کیا کریں، جب پورے ملک میں میاں صاحب کے آنے کی دھوم مچی ہوئی تھی اس یقین کے ساتھ کے میاں جدوں آئے گام لگ پتا جائے گا، تو ہمیں لگا شاید ہماری کرکٹ ٹیم بھی اسی خوشی میں جیت جائے ؟

میں یہ نہیں کہوں گی کہ میچ کا مزا نہیں آیا۔ اچھی اننگز تھی 2,3 بلے بازوں کی۔ بولنگ کا آغاز ایسا تھا کہ 10 ہزار رنز تو کہیں نہیں گئے۔ لیکن شاہین شاہ نے بہت اچھے وقت پر 5 ویکٹیں نکال کر ہم سب کے منہ بند کر دیے۔

اسامہ میر اس کیچ کے بعد گیم میں واپس نہیں آسکے۔ حارث رؤف کو مار تو پڑی لیکن وہ کہیں نہ کہیں سے لاہور قلندر کی لاج رکھ ہی لیتے ہیں۔ اور آج مجھے پہلی بار احساس ہوا کے کیا پتا کبھی کبھی پچ فیلڈنگ کے لیے بھی نہ بنی ہو، کیوں کے ہم سے نہیں ہو رہی تھی۔  کیا کبھی کسی نے پچ سے پوچھا ہے کے وہ کیا چاہتی ہے ؟

سچ پوچھیے تو میاں صاحب بار بار وزیر اعظم بن کے اتنا نہیں تھکے جتنا میں اپنی ٹیم کو ہارتے دیکھ کر تھک گئی ہوں۔ میاں صاحب کی سیاست تو نہیں ختم ہو سکی لیکن میری اپنی ٹیم سے امیدیں ختم ہوگئی ہیں۔ جس طرح میاں صاحب آخری وقت تک وزیراعظم کی کرسی کو چمڑے رہتے ہیں، اسی طرح میں بھی ٹیم کے آخری رن یا بال تک اسکرین سے چپکی رہتی ہوں۔ یہ جو بار بار میاں صاحب وزیر اعظم بنتے ہیں، کیا یہی قسمت میری اس ٹیم کو نہیں مل سکتی ؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مہوش بھٹی کبھی کبھی سوچتی اور کبھی کبھی لکھتی ہیں۔ اکثر ڈیجیٹل میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp