چہرے اور تصویر کو تبدیل کرنے والا فوٹو ٹول یا مصنوعی ذہانت کی ہیرا پھیری؟

ہفتہ 21 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کیمرہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا، سوائے اس کے کہ یقیناً ایسا ہی ہوا ہوگا جس کی عکس بندی کی گئی ہے۔ لیکن اسمارٹ فون کے دور میں تصاویر کو بہتر بنانے یا ان میں تبدیلی کرنے کے لیے ڈیجیٹل ترمیم عام بات ہے۔ اب مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے چلنے والے اسمارٹ فون ٹولز کی نئی خصوصیات نے نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ گوگل پکسل کے ذریعے چہرے (یا تصویر) کو تبدیل کرنے والا فوٹو ٹول مصنوعی ذہانت کی ہیرا پھیری تو نہیں؟

گزشتہ ہفتے جاری ہوئے گوگل کے تازہ ترین اسمارٹ فونز پکسل 8 اور پکسل 8 پرو دیگر کمپنیوں کی ڈیوائسز کے مقابلے میں ایک قدم آگے ہیں۔ وہ کیمرے تصاویر میں لوگوں کے تاثرات کو تبدیل کرنے میں مدد کے لیے مصنوعی ذہانت ( اے آئی) کا استعمال کر رہے ہیں۔

ان گروپ تصاویر میں ایک شخص مسکرانے میں ناکام رہتا ہے۔ گوگل کے فونز اب آپ کی تصاویر کو ماضی کے تاثرات سے ملانے کے لیے مشین لرننگ کا استعمال کرتے ہوئے دوسری تصویر سے مسکراہٹ کو نئی تصویر میں ڈال سکتے ہیں۔ آپ پہلی اور دوسری تصویر غور سے دیکھیں کہ کس طرح کیمرے نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے سنجیدہ کھڑے شخص کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی۔

پہلی تصویر جس میں چشمہ گلے میں لٹکائے ایک شخص سنجیدہ کھڑا ہے

ترمیمی تصویر جس میں چشمہ گلے میں لٹکائے شخص کے چہرے پر مسکراہٹ لائی گئی ہے

نئی ٹیکنالوجی صارفین کو تصاویر میں موجود ناپسندیدہ عناصر کو مٹانے، منتقل کرنے اور ان کا سائز تبدیل کرنے کی سہولت بھی دیتی ہیں۔ جس میں میجک ایڈیٹر کے ذریعے بیک گراؤنڈ (پس منظر) بھی بدلا جا سکتا ہے، یہ ڈیپ لرننگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت الگورتھم استعمال کرتا ہے جو آس پاس کے پکسلز کا تجزیہ کرکے خلا کو پر کر دیتا ہے، جس میں لاکھوں دیگر تصاویر سے حاصل کردہ علم کا استعمال کیا گیا ہے۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ اسی ڈیوائس پر لی گئی تصاویر ہوں، پکسل 8 پرو کا استعمال کرتے ہوئے آپ اپنی گوگل فوٹو لائبریری میں کسی بھی تصویر پر میجک ایڈیٹر یا بیسٹ ٹیک لاگو کرسکتے ہیں۔

تکنیکی مبصرین اور تجزیہ کاروں نے گوگل کی نئی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو ممکنہ طور پر خوفناک اور سنگین خطرات پیدا کرنے کی صلاحیت کے طور پر بیان کیا ہے۔ یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز میں صحافت کے سینئر لیکچرر اور پیشہ ور فوٹوگرافر اینڈریو پیئرسال نے بھی اتفاق کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت میں ہیرا پھیری سے خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمالیاتی وجوہات کی بنا پر بھی ایک سادہ ہیرا پھیری ہمیں ایک تاریک راستے پر لے جا سکتی ہے۔

پہلی تصویر: نوجوان لان ٹینس کھیل رہا ہے جبکہ دوسرے کورٹ کے پولز بھی دکھائی دے رہے ہیں

ترمیمی تصویر: نوجوان لان ٹینس کھیل رہا ہے جبکہ دوسرے کورٹ کے پولز غائب ہیں

انہوں نے کہا کہ پیشہ ورانہ سیاق و سباق میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کرنے والوں کے لیے خطرات زیادہ ہیں، ان کے مضمرات پر سب کو غور کرنا ہوگا۔ آپ کو اس بارے میں بہت محتاط رہنا ہوگا کہ ’آپ اس لائن پر کب قدم رکھتے ہیں؟‘۔

فوٹوگرافر اینڈریو پیئرسال نے کہا کہ ’یہ بہت پریشان کن ہے کہ اب آپ ایک تصویر لے سکتے ہیں اور اپنے فون پر فوری طور پر کسی چیز کو ہٹا سکتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک قسم کی جعلی دنیا کے دائرے میں جا رہے ہیں۔

یونیورسٹی آف کیمبرج میں گرافکس اور ڈسپلے کے ماہر پروفیسر رافال منتیوک کا کہنا ہے کہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اسمارٹ فونز میں مصنوعی ذہانت کا استعمال تصاویر کو حقیقی زندگی کی طرح دکھانے کے لیے نہیں ہے۔ لوگ حقیقت کے بجائے خوبصورت تصاویر کھینچنا چاہتے ہیں. اسمارٹ فونز میں پوری امیج پروسیسنگ پائپ لائن اچھی نظر آنے والی تصاویر کے لیے ہے، حقیقی نہیں۔

رواں برس کے اوائل میں سام سنگ کو اپنے اسمارٹ فونز کے ساتھ چاند کی تصاویر کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ڈیپ لرننگ الگورتھم کا استعمال کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ نئی تکنیک کی بدولت اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے شروع میں کتنی ہی خراب تصویر لی تھی، دوسرے لفظوں میں ضروری نہیں کہ چاند کی تصویر اس چاند کی تصویر ہو جسے آپ دیکھ رہے تھے۔

ماہرین کے مطابق اگرچہ نئی ٹیکنالوجیز اس بارے میں اخلاقی غور و فکر پیدا کرتی ہیں کہ حقیقت کیا ہے اور کیا نہیں؟ ہمیں اپنی آنکھوں کی حدود پر بھی غور کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم تیز رنگین تصاویر دیکھتے ہیں کیونکہ ہمارا دماغ معلومات کو دوبارہ تشکیل دے سکتا ہے اور گمشدہ معلومات کا اندازہ بھی لگا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp