میاں صاحب آگئے، پھر جانے کے لیے؟

اتوار 22 اکتوبر 2023
author image

ثنا ارشد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سیاست سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں دوستیاں اور دشمنیاں بدلتی رہتی ہیں۔ آج آپ مخالف ہیں، کل دوست بن جائیں گے۔آج شیروشکر ہیں، کل ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جائیں گے۔ آج ایک دوسرے کے صدقے لے رہے ہوتے ہیں، اگلے دن ایک دوسرے کا نام سننا گوارا نہیں کرتے۔ محبت نفرت، اور نفرت محبت میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔

اس کی تازہ مثال نواز شریف کی مقتدرہ سے بڑھتی ہوئی قربتیں اور عمران خان کی دوریاں ہیں۔ نواز شریف کیسے سیاست سے آؤٹ ہوئے اور پھر ری انٹری کی۔ کس نے سوچا تھا کہ نازوں سے پالا ہوا لاڈلا سیاستدان آج جیل کی ہوا کھا رہاہو گا اورسیاست کے لیے تا حیات نا اہل نواز شریف چار سال بعد دوبارہ وطن واپس آ کرایک بار پھر وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہونے کے لیے تیار ہوگا۔

قسمت کی دیوی کیسے مہربان ہوتی ہے یہ تو کل کے مناظر دیکھنے کے بعد اندازہ ہو جاتا ہے۔ آج سے پانچ سال پہلے کہا تو یہی جارہاتھا کہ نوازشریف اب پاکستانی سیاست کا عضو معطل ہیں۔ وہ مائنس ہوچکے ہیں۔ کبھی پلس نہیں ہوسکیں گے۔ لوگ شرطیں لگایا کرتے تھے۔ شاید منصوبہ بندی بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔

اب بھی سوچا تو یہ گیا تھا کہ ہر بار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خراب تعلقات کی بنا پر اقتدار سے نکالے جانے والے نواز شریف کو آتے ہی ہتھکڑی لگائی جائے گی اور عدالتوں کے ذریعے سزا دلوائی جائے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ اس کے برعکس عدالتوں سے ریلیف دلوا کر جس پروٹوکول کے ساتھ انہیں لایاگیا اس کی بھی نظیر نہیں ملتی۔ الزام تو یہ لگتا ہے کہ یہ ریڈ کارپٹ بھی اسی جانبدار ریفری نے بچھایا جس نے ان کو نکالا تھا اور ایک بار پھر ان پرہر طرف سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔

نواز شریف کا مطالبہ تھا کہ ان کے تمام مطالبات پورے کیے جائیں اور پھر وطن واپس بلایا جائے۔ بظاہر لگتا یہی ہے کہ ان کے یہ تمام مطالبات نہ صرف پورے ہوئے بلکہ اس سے بڑھ کر انہیں عطا کیا گیا۔ اب بس انہیں صرف وزیراعظم کی کرسی پر بٹھانا رہ گیا ہے۔

میاں صاحب نے کل تقریر کی۔ خوب کی۔ اچھی کی۔ نا چاہ کر بھی وہ اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹتے دکھائی دئیے۔ کئی بار محسوس بھی ہوا کہ وہ اپنے اصل کی طرف جانا چاہ رہے ہیں، لیکن انہیں مصلحت کا پاٹھ کچھ اس طرح پڑھایا گیا کہ ان کا احتسابی بیانیہ پسِ پشت چلا جاتا۔ جن اسٹیبلشمنٹ کی شخصیات اور ججوں کا احتساب کرنے کا مطالبہ نواز شریف کرتے تھے وہ ان کی تقریر میں بہت معمولی ہی نظر آیا۔ نہ ہونے کے برابر۔ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ کہیں پسِ پشت چلا گیا ۔

نواز شریف نے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور ریاستی ستونوں کو مل کر کام کرنا ہو گا لیکن ساتھ ہی انہوں نے لانے والوں کو غالب کے شعر کےسہارے پیغام بھی سنا دیا اگر کام نہ کرنے دیا اوررکاوٹیں ڈالی گئیں تو رد عمل آئے گا اور شدید آئے گا۔

غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ میرے دل میں بدلے کی تمنا نہیں ہے۔ نواز شریف اس سے کیا تاثر قائم کرنا چاہتے تھے؟ کیا وہ اداروں کو پیغام دے رہے ہیں کہ ان کی تمام باتیں نہیں مانی جائیں گی اور انتخابات کے لیے کھلے میدان کا مطالبہ بھی کیاہے؟ نواز شریف اب کیا رول ادا کریں بدلے کی سیاست کریں گے یا مفاہمت کی ؟

نواز شریف جانتے ہیں کہ سیاست میں مہارت، رفتار اور کنٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔ جان بوجھ کر فاؤل کرنے کی کوشش میں جانبدار ریفری سیٹی کا سہارا لے کر میدان سے باہر کر دیتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اسی لیے عمران خان کے ساتھ یہ سب ہوا جن کے لیے ہر طرف سے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ اسی لیے نواز شریف نہایت محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ یا انہیں اپنانے پر مجبور کیا جارہا ہے تاکہ وجو ڈیل وہ کر کے آئے ہیں اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں ۔

وہ جانتے ہیں کہ بصورتِ دیگر ان سے موقع لے کر کسی اور کی جھولی میں ڈال دیا جائے گا۔ کیونکہ گیم پلانر کے پاس متبادل آپشنز ہمیشہ کھلے رہتے ہیں جیسے عمران خا ن بعد نواز شریف کارڈ کھیلا گیا ویسے ہی عمران خان کے لیے بھی بند دروازے کھولے جا سکتے ہیں۔

آج جو کچھ میاں صاحب کے لیے ہوا ہے وہ کل عمران خان کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ بھنور سے نکالنے والی ایک مقبول قیادت کی ضرورت ہوتی ہے اور جو اس پر پورا اترے دروازے بھی اسی کے لیے کھلتے ہیں۔ قانون بھی اسی کے لیے بدلتے ہیں۔ اس لیے نواز شریف ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں۔ کیونکہ ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ ان کے لیے پلکیں بچھانے والے ایک بار پھر کسی اور کے لیے پلکیں بچھانے میں کتنا وقت لگا سکتے ہیں؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp