پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو نے ہمیں سکھایا کہ ظلم کے اندھیروں میں آوازِ حق بلند کرنے سے زیادہ کوئی اطمینان نہیں۔ بیگم بھٹو جمہوریت پسندوں کے لیے ہمت، عزم اور استقلال کا منارہِ نور تھیں۔ بیگم نصرت بھٹو اور ان کے اہلخانہ کے تذکرے کے بغیر پاکستان کی سیاسی تاریخ نامکمل ہوگی۔
پیپلز پارٹی میڈیا سیل بلاول ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق، پی پی پی چیئرمین نے بیگم نصرت بھٹو کی 12 ویں برسی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مادرِ جمہوریت عہد ساز شخصیت تھیں، انہوں نے پاکستانی عوام کو حقِ حاکمیت واپس دلوانے کے لیے بدترین آمر کے خلاف تاریخی تحریک کی قیادت کی۔ مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو شفقت، صبر اور حوصلے کا استعارہ ہیں، انہوں نے پاکستان کی جمہوریت اور عوام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ قائدِ عوام شہید ذوالفقارعلی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد، جب تک صحت نے ساتھ دیا، بیگم بھٹو عوامی حقوق کی لڑائی لڑتی رہیں اور ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھیں۔ مادرِ جمہوریت کی جدوجہد ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے، وہ ہمارے دلوں اور تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ مادرِجمہوریت نے ظلم و جبر کا مقابلہ کیا اور ذاتی سانحات برداشت کیے۔ بیگم نصرت بھٹو نے اپنے غم کو طاقت میں تبدیل کرکے عوامی حقوق کی حفاظت کی۔ آج کا دن یہ عہد کرنے کا دن ہے کہ ہم اسی جراَت، عزم و استقلال کے ساتھ عوام کے حقوق کی جدوجہد جاری رکھیں گے، جس طرح مادرِ جمہوریت نے جدوجہد کی تھی۔
مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کی زندگی پر ایک نظر
بیگم نصرت بھٹو 23 مارچ 1929 میں ایران کے شہر اصفہان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کراچی میں مقیم رہے، وہ بڑی کاروباری شخصیت تھے۔ نصرت بھٹو کی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے 1951 میں کراچی میں شادی ہوئی تھی۔ ان کے 4 بچے 2 بیٹیاں اور 2 بیٹے تھے، جن میں بینظیر بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، صنم بھٹو اور میر شاہنواز بھٹو شامل ہیں۔
نصرت بھٹو دنیا کی واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے جمہوریت کے لیے گراں قدر خدمات اور بیش بہا قربانیاں دیں۔ ان کے شوہر ذوالفقار علی بھٹو کو 51 برس کی عمر میں 4 اپریل 1979 کو فوجی آمر ضیاالحق کے دور میں پھانسی دی گئی تھی۔
نصرت بھٹو کے چھوٹے بیٹے شاہنواز بھٹو کی 27 برس کی عمر میں فرانس میں پراسرار موت ہوئی تھی۔ جب کہ ان کے بڑے صاحبزادے مرتضیٰ بھٹو کی ہلاکت 1996 میں 42 برس کی عمر میں کراچی میں ایک پولیس مقابلے میں ہوئی۔ اس وقت ان کی بڑی بہن بینظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان تھیں۔
بیگم نصرت بھٹو کی پہلی اولاد سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں دہشت گردی کے حملے میں 54 برس کی عمر میں شہید کر دیا گیا تھا۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ بیگم نصرت بھٹو جیسی اعلیٰ سیاسی شخصیت شاید ہی کوئی اور ہو، جنہوں نے جمہوریت کے کارِزار میں اپنے شوہر اور اولاد کی لاشیں اٹھائی ہوں۔
1979 میں جب ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو نصرت بھٹو پاکستانی سیاست کا مرکزی کردار بنیں اور فوجی آمر کے خلاف سیاسی جدوجہد شروع کی۔ فوجی آمر ضیاالحق کے دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیے سرگرمی سے حصہ لیا۔ وہ 1979 سے 1983 تک پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن رہیں۔ بغرض علاج لندن گئیں تو بھٹو کی سیاسی جاں نشیں بینظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔
نصرت بھٹو اپنے بیٹے میر مرتضی بھٹو کے قتل کے بعد ذہنی صدمے کے باعث ’الزائمر‘ میں مبتلا ہوگئیں۔ اس مرض میں انسان کی یاداشت اور سوچنے کی صلاحیت بتدریج ختم ہوجاتی ہے۔ بیگم نصرت بھٹو نے زندگی کے آخری ایام دبئی میں گزارے۔ بیگم نصرت بھٹو اتوار 23 اکتوبر 2011 کو دبئی کے ایک اسپتال میں 82 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں تھیں۔