مرغی کے پروں سے بجلی پیدا کرنے کا کامیاب تجربہ

پیر 23 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سائنسدانوں نے مرغی کے پروں سے بجلی پیدا کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ دنیا نے ٹیکنالوجی کے میدان میں بے پناہ ترقی کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہر خطے میں توانائی کی طلب اور آلودگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور زمینی درجہ حرارت میں اضافے کے پیش نظر ماہرین مسلسل ماحول دوست اور قابل تجدید توانائی کے حصول کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔

پولٹری کی صنعت اور خطرناک فضلہ

فوڈ انڈسٹری بشمول پولٹری کی صنعت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر فضلہ اور دیگر مادوں کا باعث بنتی ہے اور ہر سال تقریباً 40 ملین میٹرک ٹن مرغی کے پروں کو جلایا جاتا ہے جس کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ کے علاوہ سلفر ڈائی آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں۔

مرغی کے پروں سے بجلی کی پیداوار

ای ٹی ایچ زیورخ اور نانیانگ ٹیکنولوجیکل یونیورسٹی سنگاپور (این ٹی یو) کے محققین نے حال ہی میں مرغی کے پروں سے بجلی بنانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ یہ ایک سادہ اور ماحول دوست عمل ہے جس میں پروں سے پروٹین کیراٹین کو نکالا جاتا ہے اور اسے انتہائی باریک ریشوں میں تبدیل کیا جاتا ہے جنہیں ایمیلوئیڈ فائبرز کہا جاتا ہے۔ یہ کیراٹین فائبرز فیول سیل کی جھلی میں استعمال ہوتے رہتے ہیں۔

فیول سیل ہائیڈروجن اور آکسیجن سے کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک بجلی پیدا کرتے ہیں اور صرف حرارت اور پانی چھوڑتے ہیں۔ یہ فیول سیل مستقبل میں پائیدار توانائی کے ذریعہ کے طور پر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہر فیول سیل کے مرکز میں ایک نیم سرائیت پذیر جھلی ہوتی ہے جو پروٹون کو گزرنے کی اجازت دیتی ہے لیکن الیکٹران کو جھلی میں سے گزرنے  سے روکتی ہے اور اسے ایک بیرونی سرکٹ کے ذریعے منفی چارج شدہ اینوڈ سے مثبت چارج شدہ کیتھوڈ تک بہنے پر مجبور کرتی ہے جس کے باعث برقی رو کرنٹ پیدا ہوتی ہے۔

صنعتی فضلہ کا مفید استعمال

روایتی فیول سیلز میں ان جھلیوں کو انتہائی زہریلے کیمیکلز یا کبھی نہ ختم ہونے والے کیمیکلز کا استعمال کرتے ہوئے بنایا جاتا ہے جو مہنگے بھی ہیں اور آلودگی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ دوسری طرف ای ٹی ایچ اور این ٹی یو کے محققین کی تیار کردہ جھلی بنیادی طور پر حیاتیاتی کیراٹین پر مشتمل ہے جو ماحول سے مطابقت رکھتی ہے اور بڑی مقدار میں دستیاب ہے۔

سستی اور ماحول دوست ٹیکنالوجی

مرغی کے پروں میں 90 فیصد کیراٹین پائی جاتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیبارٹری میں تیار کردہ جھلی روایتی جھلیوں کی نسبت 3 گنا تک سستی ہے۔ ای ٹی ایچ زیورخ میں فوڈ اینڈ سافٹ میٹریلز کے پروفیسر رافیل میزینگا کہتے ہیں کہ انہوں نے مختلف طریقوں پر تحقیق کے لیے کئی سال وقف کیے ہیں، ان طریقوں سے قابل تجدید توانائی کے حصول کے لیے کھانے کے فضلہ کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے، اس نئی ٹیکنالوجی سے زہریلے مادوں میں کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج روکا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp