آپ کا تعلق پاکستان سے کسی بھی علاقے سے ہو ڈینسو ہال کراچی کا نام ضرور سنا ہوگا، یہ ایک عمارت کا نام ہے جو 1886ء میں انگریز دور حکومت میں کراچی کی پہلی لائیبریری کے طور پر مقامی آبادی کی خدمت کے لیے بنائی گئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اولڈ سٹی ایریا میں واقع ڈینسو ہال سے منسلک گلیوں اور مارکیٹ کو ڈینسو ہال کے نام سے پکارا جانے لگا۔
ڈینسو ہال اور اس کے ارد گرد کی عمارتوں کو اگر دیکھا جائے تو ان کی تعمیر خاص پتھر سے ہوئی ہے اور پائیداری کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ قریباً ڈیڑھ صدی گزر جانے کے باوجود یہ اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔جب گورے یہاں آئے تھے یہ عمارات انہوں نے بنائی تھیں۔
یہ علاقہ ہمیشہ تجارتی مرکز رہا ہے اس وقت بھی یہاں قدم رکھتے ہی پہلی جھلک میں انواع و اقسام کی اشیا آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتی ہیں۔ ڈینسو ہال کے بالکل سامنے انگریز دور میں دوطرفہ سڑک ہوا کرتی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ پارکنگ میں بدلی اور اب یہ کراچی کی پہلی آلودگی سے پاک سڑک کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔
بندر روڈ سے ٹاور جانے والے راستے پر میمن مسجد سے پہلے مڑتے ہی الٹے ہاتھ پر گنجان آباد علاقے میں سرسبز گلی پر نظر پڑتی ہے، یہاں آپ کو پیدل جانا پڑے گا کیوں کہ گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے، اس مقام پر این جی او اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے سورج کی کرنوں کو براہ راست روکنے کے لیے سبز نیٹ کا استعمال کیا گیا ہے، انواع و اقسام کے پودے لگائے گئے ہیں، اگر تھکاوٹ محسوس ہو تو بینچ رکھے گئے ہیں جس پر آپ تھوڑی دیر آرام بھی کرسکتے ہیں، اس مقام کی خاصیت یہ ہے کہ ارد گرد کے علاقوں کے برعکس یہاں کا درجہ حرارت کم رہتا ہے۔
یہاں آئے خریداروں کا کہنا ہے کہ کوئی دھکم پیل نہیں کراچی میں موٹر سائیکل سوار ہر جگہ گھس جاتے ہیں لیکن اس جگہ پر تسلی رہتی ہے کوئی ہارن نہیں بجے گا اور کھلی جگہ ہے، خریدار کہتے ہیں کہ یہاں آکر اچھا لگتا ہے، بیٹھنے کا بھی انتظام موجود ہے۔
یہاں پر بیٹھے تاجر ایک طرف اس ماحول سے خوش ہیں تو دوسری طرف شکوہ کرتے ہیں کہ دکان تک گاڑی نا آنے کے باعث خریدار یہاں نہیں آتے، آگ لگنے کی صورت میں فائر ٹینڈر بھی اندر داخل نہیں ہو سکتے۔