نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان میں مقیم افغان شہری فواد خان نے اپنا کاروبار فروخت کردیا اور گھر کا سامان ٹرک میں لاد کر گھر والوں کے ہمراہ اپنے ملک افغانستان روانہ ہو گیا۔
فواد خان کے مطابق وہ کافی عرصے سے پاکستان آتے رہتے تھے اور محنت مزدوری کرکے افغانستان میں اہل خانہ کی کفالت کرتے تھے۔ لیکن افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد حالات ابتر ہوئے تو ان کے خاندان نے بھی بہتر مستقبل کے لیے پاکستان سکونت اختیار کرلی۔
حکومت نے ملک بھر میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں کو یکم نومبر سے پہلے ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے، بصورت دیگر ان کے خلاف کارروائی کا کہا ہے۔
افغانستان روانگی سے قبل گفتگو میں فواد خان نے بتایا کہ انھوں نے بہت سوچ کر رضا کارانہ واپسی کا فیصلہ کیا۔ ’عزت کے ساتھ واپسی بہتر ہے۔ میرے ساتھ خواتین اور بچے ہیں، کل اگر پولیس اور دیگر لوگ خواتین کو زبردستی نکال کر واپس کریں گے تو بے عزتی ہو گی۔‘
ایک دن ضرور واپس جانا ہے تو آج عزت کے ساتھ کیوں نہیں؟
فواد خان نے بتایا کہ افغانستان میں غربت اور معاشی مشکلات کے باعث وہ پاکستان ائے تھے اور ان کی کوشش تھی یہاں سے کسی مغربی ملک نکل سکیں لیکن کوشش کے باوجود بھی ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔
’وقتی رہائش کے لیے پاکستان اچھا ہے لیکن یہاں بھی مستقبل نہیں ہے۔ 40 سال سے افغان یہاں رہائش پذیر ہیں ان کو بھی شہریت نہیں مل رہی۔‘
فواد خان کے مطابق پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو ایک دن واپس جانا ہے۔ پاکستانی حکومت افغانوں کو شہریت نہیں دے رہی، اور یہاں بھی معاشی صورت حال کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ اگر ایک دن واپس اپنے ملک جانا ہے تو آج عزت کے ساتھ کیوں نہیں۔
فواد خان منی کابل کہلائے جانیوالے پشاور کے بورڈ بازار میں کباڑ کا مال فروخت کرتے تھے۔’میں نے بھی وطن واپس جا کر محنت کرنے کا سخت مشکل فیصلہ کیا ہے۔۔۔ ہم کابل میں رہائش اختیار کریں گے اور وہیں محنت کریں گے۔‘
حکومتی ڈیڈلائن کے بعد افغان شہری پریشان
پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں کو وطن واپسی کے لیے دی گئی ڈیڈلائن کے بعد ملک بھر میں رہائش پذیر افغان باشندوں میں پریشانی اور بے چینی پھیل گئی ہے۔ بیشتر افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مشکل حالات اور جنگ کی وجہ سے وہ پاکستان میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔
پشاور میں مقیم افغان شہری کبیر گل کہتے ہیں کہ حکومتی الٹی میٹم کے بعد سے وہ بے حد پریشان ہیں۔ ’ہماری زندگی میں مشکلات اور پریشانیاں ہی ہیں۔ اچھے دن نہیں دیکھے۔ جنگ اور غریت کی وجہ سے بے گھر ہیں۔ افغانستان میں بھوک سے مرنے کا خوف ہے اور پاکستان رہنے نہیں دے رہا، جائیں تو کہاں جائیں۔‘
لیکن افغانستان واپس جانے کے بجائے کبیر پر امید ہیں کہ پاکستانی حکومت ان کے ساتھ تعاون کرے گی اور انہیں زبردستی واپس نہیں بھیجا جائے گا۔
’کسی بھی صورت واپس نہیں جاؤں گی‘
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان آنیوالی شمیم اپنے 3 بچوں کے ساتھ پشاور میں رہائش پذیر ہیں، ان کی دو بیٹیاں پشاور میں زیر تعلیم ہیں۔ ’میں وہاں ایک اسکول میں پڑھاتی تھی، طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد حالات خراب ہو گئے اور مجبوراً ہمیں اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔‘
شمیم کا موقف ہے کہ وہ واپس افغانستان نہیں جاسکتیں۔ ان کا شوہر ایک مغربی ملک میں ملازمت کرتا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ انہیں بھی وہاں بلالے۔ ’ہمیں واپس کرنے کا مطلب ہے کہ میری بچیوں کو تعلیم سے محروم کرنا اور ہمیں بھوک اور غربت میں دھکیل دینا۔‘
شمیم نے بتایا کہ پاکستان میں بھی ان کی زندگی مشکلات سے بھری ہے لیکن اپنے ملک کی نسبت حالات بہتر ہیں۔ حکومت کوئی بھی کارروائی کرے، جیل میں ڈالے وہ واپس نہیں جانا چاہتیں۔
یکم نومبر سے غیر قانونی مقیم باشندوں کے خلاف کارروائی ہوگی
پاکستان نے واضح کیا کہ یکم نومبر سے ملک میں بغیر دستاویز کے مقیم غیر ملکی باشندوں کے خلاف کارروائی میں انہیں زبردستی واپس بھیجا جائے گا۔ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے پشاور کے حالیہ دورے کے دوران بتایا تھا کہ کارروائی ان کے خلاف ہو گی جو دستاویزات کے بغیر غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔
کریک ڈاؤن کے لیے تیاریاں
پاکستان میں غیر قانونی پر بڑی تعداد میں غیر ملکی باشندے آباد ہیں جن میں سب سے زیادہ افغان ہیں جو جنگ کے باعث پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی بھی ایک بڑی تعداد آباد ہے جنہیں قانونی حیثیت حاصل ہے۔
حکومتی فیصلے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے بھی یکم نومبر سے غیر قانونی مقیم باشندوں کے خلاف ممکنہ کریک ڈاون کی تیاری شروع کر دی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت غیر قانونی طور پر مقیم افراد کا ڈیٹا جمع کر رہی ہے۔ حکومتی ذرائع نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق افغانوں کی پاکستان میں کاروبار کے ساتھ جائیدادیں بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اثاثوں کی تفصیلات بھی اکٹھا کی جارہی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ کمشنر پشاور ڈویژن کی ہدایت پر عارضی کیمپوں کے قیام کے لیے 3 مختلف مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ پولیس ڈیٹا جمع کر رہی ہے۔ ’اصل میں اسلام آباد، پنچاب اور خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع سے واپسی پشاور سے ہو گی تو یہاں انتظامات کیے جا رہے ہیں۔‘
ذرائع نے مزید بتایا کہ کریک ڈاون میں پولیس کو ضلعی انتظامیہ اور دیگر اداروں کی معاونت حاصل ہو گی۔ اور غیر قانونی رہائش پذیر افراد کو گرفتار کرکے واپس ان کے ملک بھیجا جائے گا۔
افغانوں کی واپسی کا عمل جاری
ذرائع کے مطابق حکومتی ڈیڈلائن کے بعد پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی واپسی میں تیزی آئی ہے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق صرف 23 اکتوبر کے روز 2716 افغان باشندے اپنے ملک واپس گئے ہیں، جن میں 622 مرد، 293 خواتین اور 1801 بچے شامل تھے۔ یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔
افغانوں کی واپسی کا رہائشی کرایوں پر کیا اثر پڑا ہے؟
پاکستان میں اثاثے رکھنے اور کاروبار سے وابستہ افغانوں نے اپنے اثاثے فروخت کرنا شروع کر دیے ہیں۔ کئی علاقوں میں افغانوں نے کاروبار یا دیگر اثاثے فروخت کر دیے ہیں۔ فواد خان نے بھی اپنا کاروبار اپنے ایک کاروباری دوست کو فروخت کیا۔ فواد کے مطابق انہیں مارکیٹ سے کم ریٹ پر اکتفا کرنا پڑا۔
’ہر کوئی مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، ہماری مجبوری ہے ہر کوئی کوڑی کے دام خریدنا چاہتا ہے۔ پریشانی ہے اور ان حالات میں کچھ بھی نقد مل جائے تو غنیمت ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی دکانیں اور گھر ہیں وہ سخت پریشان ہیں۔‘
پراپرٹی ڈیلروں کے مطابق افغانوں کی واپسی ضرور شروع ہوئی ہے لیکن اس کا پراپرٹی کی قیمتوں پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ حیات آباد میں پراپرٹی کے کام سے منسلک کامران احمد نے بتایا کہ کچھ علاقوں میں کرایوں میں معمولی کمی آئی ہے لیکن یہ کچھ خاص نمایاں نہیں کہی جاسکتی۔‘
’پوش علاقوں میں اکثر قانونی دستاویز رکھنے والے افغان رہائش پذیر ہیں اور وہ واپس نہیں جا رہے، جو لوگ جا رہے ہیں وہ بورڈ، ناصر باغ یا دیگر افغان علاقوں سے جا رہے ہیں وہاں ریٹ پہلے ہی کم ہیں۔‘
کامران نے مزید بتایا پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث پراپرٹی کا کاروبار پہلے سے ہی متاثر ہے اور ان حالات میں مارکیٹ قیمت پر فروخت کرنا افغانوں کے لیے مشکل ہو گا۔
ڈیڈلائن کے باوجود افغانوں کی واپسی سست روی کا شکار کیوں؟
نگران وفاقی وزیر داخلہ نے کچھ روز پہلے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان میں 11 لاکھ17 ہزار غیر ملکی باشندے غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، جن کی اکثریت افغانوں کی ہے۔ حکومتی ڈیڈلائن کے بعد ایسے افغانوں کی واپسی ضرور ہو رہی ہے لیکن حکومتی ذمہ داروں کے مطابق ان کی واپسی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
حکومتی ذرائع نے موقف اپنایا کہ غیر قانونی مقیم افغانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جبکہ واپسی ابھی تک ہزاروں میں ہوئی ہے۔ ان کے مطابق غیر قانونی مقیم افغانوں کی بڑی تعداد نے ابھی تک واپسی کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ان کی سوچ ہے کہ شاید حکومت فیصلہ واپس لے لے اور انہیں مزید مہلت مل جائے۔
ذرائع کے مطابق ابھی تک ایک لاکھ افغان بھی واپس نہیں گئے ہیں۔