عمادیوسف کے خلاف ٹرائل ختم، شہباز گل کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری دوبارہ جاری

بدھ 25 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ٹی وی ڈائریکٹر نیوز عماد یوسف کیخلاف بغاوت پر اکسانے کے جرم میں شرکت کا مقدمہ ختم کرتے ہوئے مرکزی ملزم اور رہنما تحریک انصاف شہباز گل کے ایک مرتبہ پھر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی شہبازگل کیخلاف بغاوت پر اکسانےکےکیس میں دوبارہ ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے جج طاہرعباس سِپرا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے شریکِ ملزم عمادیوسف کے خلاف ٹرائل ختم کرنے کی ہدایت کی ہے لہذا یہ عدالت عمادیوسف کے خلاف ٹرائل باقاعدہ ختم کرتی ہے۔

جج طاہرعباس سِپرا کا کہنا تھا کہ شریک ملزم عمادیوسف کی حد تک کیس میں ٹرائل ختم کیاجاتاہے، تاہم کیس میں اشتہاری قرار دیے گئے شہبازگِل کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری دوبارہ جاری کیے جاتےہیں، انہوں نے پولیس کو ہدایت کی کہ شہبازگِل جب بھی نظر آئیں، گرفتار کرکےعدالت پیش کیاجائے۔

عماد یوسف کے حوالے سے سپریم کورٹ کا ٖفیصلہ

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 3 اگست کو ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اے آر وائی کے ڈائریکٹر نیوز عماد یوسف کو الزامات سے بری کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

17 اکتوبر کو جاری کیے گئے تحریری فیصلے کے مطابق مرکزی ملزم شہباز گل کے خلاف اداروں کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات کے تحت جو مقدمہ درج کیا گیا اس کے لیے وفاقی حکومت کی درخواست شہباز گل تک محدود تھی۔ عماد یوسف کو اس میں ملوث کرنا عدالتی طریقہ کار کا غلط استعمال ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی زیر سربراہی تین رکنی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل بھی شامل تھے، جنہوں نے 14 فروری 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عماد یوسف کی درخواست پر سماعت کی تھی۔

بینچ کا فیصلہ تھا کہ اختیارات کے غلط استعمال سے معاشرے میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس قائم ہوتا ہے، جس سے ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔

عماد یوسف کو 8 اگست 2022 کو چینل پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گِل کے متنازع بیان نشر ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا، جس میں سابق وزیر اعظم کے چیف آف اسٹاف نے کچھ ایسے تبصرے کیے تھے جو مسلح اداروں کی مخالفت کے طور پر سمجھے گئے، جس کے نتیجے میں ان پر مجرمانہ الزامات عائد کیے گئے تھے۔

عدالتی فیصلے میں وضاحت کی گئی تھی کہ ہر شہری کو سیاسی اور سماجی انصاف، تقریر اور سوچ کی آزادی کا حق حاصل ہے، جو قانون کی طرف سے عائد کردہ معقول پابندیوں سے مشروط ہے۔

تحریری فیصلے کے مطابق ان حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنے اختیارات اور طاقت کا استعمال آئین کے مطابق کرے، مزید کہا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا لوگوں سے معلومات حاصل کرنے اور فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے سیاستدانوں، میڈیا پرسنز، انسانی حقوق کے کارکنان اور حتیٰ کہ ان کے خاندان پر درج کی گئی ایف آئی آر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ایسے مخالفانہ ماحول میں میڈیا اپنے فرائض آزادی سے انجام نہیں دے سکتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp