گیلیپ پاکستان اور PRIDE نے مشترکہ سروے میں پاکستان میں انجینئرنگ کی خواتین گریجویٹس کے لیے ملازمت کے مواقع کے حوالے سے ایک مایوس کن اعداد و شمار سے پردہ اٹھایا ہے، سروے کے مطابق 70 فیصد خواتین انجینئرز یا تو بے روزگار ہیں یا تو افرادی قوت سے باہر ہیں۔
سروے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی کل 28,920 خواتین انجینئرنگ گریجویٹس میں سے صرف 8,146 ( جو کہ تقریباً 28 فیصد بنتی ہیں) اس وقت ملازم ہیں۔ بقیہ 6,054، ( 20.9 فیصد) بے روزگاری سے دوچار ہیں، جبکہ حیرت انگیز طور پر 14،720 (50.9 فیصد) لیبر فورس میں فعال طور پر حصہ نہیں لے رہی ہیں۔
یہ تشویشناک اعداد وشمار پاکستانی معاشرے کی تشویشناک تصویر پیش کرتے ہیں جو دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر کھڑا ہے، حالانکہ حکومت نے پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کو سبسڈی دینے کے لیے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے، خاص طور پر میڈیکل اور انجینئرنگ کے شعبوں میں۔
سروے میں لیبر فورس سروے 2020-21 کے اعداد و شمار کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا، جس میں خواتین انجینئرنگ گریجویٹس پر توجہ مرکوز کی گئی، بشمول ایسی خواتین جنہوں نے بیچلر، ایم ایس/ایم ایس سی، ایم فل یا پی ایچ ڈی انجینئرنگ کے مختلف شعبوں میں ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔
سروے کے دوران انجنیئرز خواتین کے 3گروپس بنائے گئے، جن میں ملازم، بے روزگار، اور وہ خواتین جو افرادی قوت سے باہر ہیں، شامل کی گئیں، نتائج میں دیہی اور شہری علاقوں کام کے مواقع کے حوالے سے بھی واضح فرق سامنے آیا۔
کتنی خواتین انجنیئرز لیبر فورس میں شامل ہونے سے انکاری ہیں؟
سروے سے نتیجہ اخد کیا گیا کہ انجینئرنگ کی تمام خواتین میں سے 21.1 فیصد دیہی علاقوں میں رہتی ہیں، جب کہ اکثریت، 78.9%، شہری علاقوں میں مقیم ہیں۔ دیہی علاقوں کے اندر، 43.9 فیصد خواتین انجینئرنگ گریجویٹس ملازمت کرتی ہیں اور 36.3 فیصد بے روزگار ہیں اور 19.8 فیصد خواتین افرادی قوت میں حصہ نہیں لے رہی ہیں جو کہ 50.9 فیصد کی قومی اوسط سے کافی کم ہے۔
شہری علاقوں میں اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ شہری علاقوں میں انجینئرنگ کی تقریباً 24.0 فیصد خواتین فارغ التحصیل ہیں، جب کہ 16.8 فیصد بے روزگار ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ شہری علاقوں میں اکثریت، 59.2 فیصد نے لیبر فورس سے باہر رہنے کا انتخاب کیا ہے۔
روزگار کے مواقع میں علاقائی تفریق واضح ہے، دیہی علاقوں میں 32.8 فیصد کے مقابلے میں شہری علاقوں میں 67.2 فیصد زیادہ ملازمتوں کے مواقع موجود ہیں، تاہم دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح شہری علاقوں میں 63.5 فیصد کے مقابلے میں 36.5 فیصد کم ہے۔
لیبر فورس میں سے انجینئرنگ گریجویٹس کی کل تعداد 14,720 میں91.8 فیصد شہری علاقوں میں ہے، باقی 8.2 فیصد دیہی علاقوں میں ہے۔
سروے میں ایک اور بات سامنے آئی ہے کہ ان خواتین انجینئرنگ گریجویٹس کی ازدواجی حیثیت ان کی ملامتوں میں حائل ہے، لیبر فورس میں حصہ نہ لینے والی خواتین میں سے 64.2 فیصد شادی شدہ ہیں جبکہ 28.42 فیصد غیر شادی شدہ ہیں۔
10 میں سے صرف 3 خواتین انجینئرز ملازم ہیں، بلال کیانی
گیلیپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال گیلانی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایسی صورت حال میں جب کہ تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ خواتین کی بڑی تعداد بے روزگار ہے یا پھر کام کرنے سے انکاری ہے، پاکستان میں سنجیدہ بات چیت اور توجہ کی ضرورت ہے۔
بلال کیانی نے انکشاف کیا ہے کہ 10 میں سے صرف 3 خواتین انجینئرز ملازم ہیں، جب کہ 10 میں سے 7 کام نہیں کر رہی ہیں۔
PRIDE کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عمر خالد نے نشاندہی کی کہ انجینئرنگ سے فارغ التحصیل خواتین کی ایک بڑی تعداد لیبر فورس سے باہر رہنے کا انتخاب کرتی ہے، خاص طور پر شہری علاقوں میں اور شادی شدہ انجنیئرز خواتین کام سے انکاری ہیں۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پبلک سیکٹر کے انجینئرنگ کالجز اور یونیورسٹیوں میں سیٹوں کی الاٹمنٹ کا از سر نو جائزہ لے تاکہ پیسے کی قدر کو یقینی بنایا جا سکے۔
واضح رہے کہ اس سروے میں پاکستان بھر کے تقریباً 99,900 گھرانوں سے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے۔