نیم تاریک اسٹڈی روم کا ماحول پرسکون ماحول تھا۔ لاوڈ اسپیکر پہ دھیمے سروں میں بجنے والی مہدی حسن کی غزل باہر سیکرٹری کے کمرے میں سنائی دے رہی تھی۔
میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے
یہ زہر میرے لہو میں اتر گیا کیسے
میں ایک طرف بیٹھ کر اپنے ساتھ لائے ہوئے نوٹس اور کتابوں کی ورق گردانی کرنے لگا، کانوں میں مہدی حسن کی آواز گونج رہی تھی۔
ضرور اس کی توجہ کی رہبری ہو گی
نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے
جسے بھلائے کئی سال ہو گئے کامل
میں آج اس کی گلی سے گزر گیا کیسے
کچھ دیر میں موسیقی کی آواز بند ہوئی اور برقی روشنیوں کے جلنے سے اسٹڈی روم روشن ہو گیا۔ چند لمحوں بعد، میں ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کے روبرو تھا، جو اپنی مختصر دورانیے کی نیند کے بعد انٹرویو کی ایک نشست کے لیے چاق و چوبند بیٹھے تھے۔
سید محمد ظفر نے 6 دسمبر 1930ءکو برما کے دارالحکومت رنگون میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد رنگون کی ایک کنٹریکٹ فرم سے منسلک تھے۔ وہ وہاں کے ایک سکول میں پانچویں جماعت میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جب دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں نے سنگاپور پر قبضہ کرنے کے بعد برما کا رخ کر لیا۔ غیریقینی حالات کی وجہ سے ان کا خاندان بھی دوسرے خاندانوں کے ساتھ ہندوستان واپس آ گیا اور یہ شکر گڑھ کے قریب واقع اپنے آبائی گاﺅں میں رہائش پذیر ہو گئے۔
رنگون انگریزوں کی قائم کی ہوئی بندرگاہ کی وجہ سے اہم شہر تھا، چنانچہ وہاں کے سکولوں میں تعلیم کا معیار بہت اچھا تھا۔ اچھی انگریزی کی وجہ سے ایس ایم ظفر کو شکرگڑھ کے سکول میں دو جماعت اوپر داخلہ دے دیا گیا، یوں وہ اپنے بڑے بھائی سید محمد اقبال کے ہم جماعت بن گئے۔ انہوں نے 1945ءمیں غلام الدین ہائی سکول مینگڑی (شکر گڑھ) سے میڑک کیا، سکول میں اول آئے اور پنجاب یونیورسٹی سے سکالرشپ حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لیے بڑے بھائی نے علی گڑھ کا انتخاب کیا، جبکہ ایس ایم ظفر نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔
انہیں زمانہ طالب علمی میں قائداعظم کی تقریر سننے کا موقع ملا جب قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ طلبہ سے خطاب کرنے لاہور(اسلامیہ کالج ریلوے روڈ) تشریف لائے۔ دوران تعلیم پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رکن کی حیثیت سے، اپنے عظیم قائد کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے کام کیا۔ گورنمنٹ کالج کی یونین کے جنرل سیکرٹری کا الیکشن لڑا اور اسی زمانے میں ان کا نام سید محمد ظفر سے ایس ایم ظفر ہو گیا۔
والد انہیں انجینئر بنانا چاہتے تھے کیوں کہ وہ خود کنٹریکٹر تھے، لیکن انہوں نے وکیل بننے کی ٹھان لی۔ ایس ایم ظفر کے والد سید محمد اشرف کیفی شاہ نظامی، صاحب کشف بزرگ اور اورخواجہ حسن نظامی دہلوی کے مرید تھے۔ ”کیفی شاہ نظامی“ کا لقب بھی انہیں مرشد نے دیا تھا، کیوں کہ انہیں مستقبل میں ہونے والے کچھ واقعات کا کشف ہوجاتا تھا۔ مثال کے طور پر مہاتما گاندھی کے قتل سے 20 سال پہلے سید محمد اشرف کے ایک کشف کا بیان اخباروں میں چھپا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ مہاتما گاندھی کو ایک ہندو گولی سے مار دے گا۔
ایس ایم ظفر نے وکالت کا آغاز نچلے درجے سے کیا، اوراپنی محنت کے بدولت اس میں بہت سی کامیابیاں سمیٹیں۔ ملکی تاریخ کے کئی مشہور مقدمات کی پیروی کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہالینڈ کی عدالت میں کامیابی سے دفاع کیا۔ ایک کامیاب پیشہ ور وکیل بننے کے باوجود ملکی سیاست میں گہری دلچسپی تھی۔ 35 برس کی عمر میں ایوب کابینہ میں قانون و پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر بنے۔ چار سال ایوب کابینہ کا حصہ رہے۔
متحدہ اپوزیشن کی طرف سے 1973ءکا آئین تشکیل دینے والی ٹیم کا حصہ بنے۔ پیرپگاڑا کی سربراہی میں آل پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام کیا۔ کئی برس پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر رہے، سترہویں اور اٹھارویں آئینی ترامیم کی تیاری کے عمل میں بھی شامل رہے۔ وہ ملک کی آئینی اور سیاسی تاریخ کے چشم دید گواہ تھے۔ 2004ءسے 2012ء تک ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ 2011ءمیں انہیں صدارتی ایوارڈ نشان امتیاز سے نوازا گیا۔
ایس ایم طفر پاکستان کے صف اول کے قانون دان تھے۔ کئی اہم مواقع پر عدالت عظمیٰ نے ان کی قانونی بصیرت سے استفادہ کیا۔ وہ انسانی حقوق، قانون اور آئین کی حکمرانی کے علم بردار تھے۔ فنون لطیفہ میں گہری دلچسپی رکھنے والے ایس ایم ظفر ایک رودار معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں رہے۔ سیاست میں کرپشن کے چلن کو انہوں نے ہمیشہ ہدف تنقید بنایا، لیکن ان کا ایمان تھا کہ ملک میں بہتری جمہوریت، سیاسی جماعتوں اور سیاسی عمل کے ذریعے آ سکتی ہے۔
پرویز مشرف نے اپنے وعدے کے برخلاف وردی اتارنے سے انکار کیا تو اس وقت مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر ہونے کے باوجود اس طرز عمل کی مخالفت کی۔ وکالت سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے خود کو تصنیف و تالیف کے لیے وقف کر دیا، ان کی تحریروں سے اہل وطن رہنمائی لیتے رہیں گے۔ چند روز قبل 19 اکتوبر کو 93 برس کی عمر میں انتقال کرنے والے ایس ایم ظفر تین بیٹوں طارق ظفر، علی ظفر، عاصم ظفر اور ایک بیٹی روشانے ظفر کے مشفق والد تھے۔ بڑے بیٹے طارق ظفر کچھ برس پہلے انتقال کر گئے تھے۔
بقول الطاف حسین حالی
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا