نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس کیس میں سزا پنجاب حکومت نے معطل کر دی۔ معطلی کی درخواست پر غور کے لیے جو اجلاس ہوا اس میں نوازشریف کے وکلا نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا موقف بیان کیا ۔ یہ سزا نوازشریف کے علاج کے لیے لندن روانگی سے قبل خود پی ٹی آئی کی حکومت نے معطل کی تھی۔ اس کے بعد ہی نواز شریف کی ضمانت پر رہائی اور روانگی ممکن ہو سکی تھی۔ پی ٹی آئی رہنما بعد میں نواز شریف کی سزا معطلی اور لندن روانگی کو اپنی معصومیت قرار دے کر اپنی سیاسی حماقت کے ثبوت دیتے رہتے تھے۔
قانون اور آئین ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہو گا۔ کسی بھی بڑی جماعت اور شخصیت کے خلاف کیسز میں سرکار کی دلچسپی ختم ہو جائے تو پھر بریت میں بھلا ٹائم لگتا ہے؟ نوازشریف کی سزا معطلی، ان کی آمد اور ایئر پورٹ پر ہی بائیومیٹرک کرانا، حکومت کا ضمانت کی مخالفت نہ کرنا، اس سب سے کیا پتہ لگتا ہے؟ سیاسی، اخلاقی اور قانونی اعتراض بے شمار کیے جا سکتے ہیں لیکن سرکار کا یہ رویہ بتاتا ہے کہ کوئی ایسا ابہام پیدا نہیں کیا جارہا یا ایسا کوئی تاثر نہیں دیا جارہا ہے جس سے لگے کہ نوازشریف کو کسی بھی قسم کی مشکل درپیش ہے۔ وہ اگلے وزیراعظم ہیں، اگلوں کا بس نہیں چلتا کہ الیکشن کروائے بغیر ہی ان کے وزیراعظم بننے کا اعلان کردیں۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ صرف کپتان ہی فیل نہیں ہوا بلکہ پنڈی کا بچپن کا پیار شہباز شریف بھی اپنی پنجاب اسپیڈ سمیت فیل ہوئے ہیں۔ اب مارکیٹ کو مستحکم رکھنے، سیاسی استحکام دکھانے اور غیر یقینی کے خاتمے کے لیے یہ دکھانا اور بتانا ضروی ہے کہ آئندہ سیٹ کیا ہونے جا رہا ہے۔
آپ اندازہ کریں کہ ہمارے خطے میں انڈیا یا پاکستان الیکشن مہم کے دوران متنازعہ معاملات پر کوئی نرم بیان نہیں دیتے۔ نواز شریف نے الیکشن مہم شروع ہونے سے پہلے ہمسایوں سے اچھے تعلقات کی بات کی ہے، کشمیر کے باعزت اور باوقار سمجھوتے کی طرف جانے اور اس کے لیے تیار ہونے کی بات کی ہے، بنگلا دیش سے پاکستان تک ایک کوریڈور کا اشارہ دیا ہے، یہ سب کیا یہی نہیں بتاتا کہ ہماری معیشت ہم نے جس انداز میں ڈبوئی ہے اب یہ باتوں سے نہیں ابھرتی بلکہ اس کے لیے غیر روایتی، آؤٹ آف دی باکس سولیوشن اور مستقل پالیسی درکار ہے۔
ہم آنے والے دنوں میں دیکھیں گے کہ پی ٹی آئی اتنی بھی نہیں رہے گی کہ سیاسی طور پر کھجلی محسوس کرا سکے۔ سائفر کیس چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود کے گلے پڑ گیا ہے۔ کپتان نے سائفر کا سیاسی استعمال کرنا چاہا تھا، اس کے سفارتی اثرات کا اندازہ نہیں لگایا تھا۔ سائفر میں کیا تھا اس سے زیادہ یہ اہم ہو گیا کہ ہم سے اہم دارالحکومتوں نے رابطوں کا لیول کم کر دیا۔ سفارتکار یہ کہنے لگ گئے تھے کہ آپ لوگ اس قابل ہی نہیں ہیں کہ آپ سے بند کمروں میں بھی کھل کر کوئی بات کی جا سکے، پھر یقین رکھا جائے کہ وہ بات باہر نہیں آئے گی۔
یہ بھول جائیں کہ کپتان کی بات ہو رہی ہے، یہ حرکت کوئی بھی وزیراعظم کرتا تو اس کو اندر جانا پڑتا اور سزا بھگتنا پڑتی۔ اس نہایت سنجیدہ مسئلے میں لطیفہ یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی پھنس گئے ہیں۔ انہوں نے بطور وائس چیئرمین پی ٹی آئی سنبھالنی تھی۔ جلسوں اور پبلک میں سائفر کے حوالے سے بول بیٹھے اور اب کپتان کے ساتھ ہی اندر موج کر رہے ہیں۔ ملتانی قریشیوں کا بال جو گیلی جگہ پیر نہیں رکھتا تھا ایسا سلپ ہوا کہ سیدھا گیٹ توڑتا اڈیالہ پہنچا ہوا ہے۔
پاکستان میں اس وقت کورس کریکشن ہو رہی ہے۔ یہ ایک فوجی ٹرم ہے جب صورتحال بگڑ جائے تو اس کو سدھارنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور پراسیس کو کہتے ہیں۔ ہمارے خیبر پختونخوا کے ایک ایم این اے بڑی مزے کی کہانی سناتے ہیں۔ وہ کہانی بتاتی ہے کہ پیپلزپارٹی والے اور مسلم لیگی دونوں ہی نوازشریف کی واپسی نہیں چاہتے تھے۔ مسلم لیگیوں کی تو بولتی بند ہے۔ نوازشریف کی واپسی نے ان کی اسکیمیں خراب کر دی ہیں۔ پی پی والے شور مچا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف کو ایسے ریلیف دینا ہے تو پھر عدالتوں کو تالے لگا دیں۔
صورتحال کو دوسری طرح دیکھیں تو ایک پیغام ہر طرف گیا ہے کہ نوازشریف بہت طاقتور ہو کر واپس آ رہے ہیں۔ وہ چوتھی بار وزیراعظم سب رکاوٹیں روندتے ہوئے بننے جا رہے ہیں۔ ہمارے ڈھولے کا سیاست میں مداخلت کا شوق ختم نہیں ہوا شائد۔ پر یہ شوق پورا کرنے کو جو دانے درکار ہوتے ہیں وہ مک گئے ہیں۔ سیاسی استحکام نہیں ہو گا تو سیٹھ مارکیٹ میں پیسہ نہیں لائیں گے۔ بڑے فیصلے نہیں ہو سکیں گے۔ میگا پراجیکٹ ریجنل شفٹ اور کنیکٹیوٹی انرجی کاریڈور، کیا کیا کرنا ہے۔ یہ سب کرنے کو سیاسی استحکام لانا ضروری ہے، وہ نہیں آتا تو پکڑ کر لانا پڑے گا جس کے لیے ڈھولا کچھ بھی کرے گا۔