خالد احمد نے حال ہی میں کراچی کے ساحل سے 150 کلومیٹر دور سمندر میں 210 کلو گرام وزںی مارلن کا شکار کیا ہے، اس مچھلی کو پکڑنے کے لیے انہوں نے کئی گھنٹے سمندر میں گزارے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خالد احمد نے بتایا کہ وہ گزشتہ 15 سال سے مچھلی کا شکار کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ شوق انہیں 70 کی دہائی سے ہوا، اس کے بعد وہ امریکا چلے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ امریکا اور افریقہ میں شکار کھیلتے رہے اور پھر 2009ء میں واپس پاکستان آئے۔ خالد احمد نے کہا کہ اس کے بعد وہ اپنی کشتی بھی ساتھ لے آئے اور ہر سال 2 ماہ کے لیے پاکستان آنے لگے، انہوں نے بتایا کہ وہ صرف مچھلی کا شکار کرنے کے لیے پاکستان آتے ہیں، پاکستان کو اللہ نے بہت سے نعمتوں سے نوازا ہے، اسکا پانی مچھلیوں سے بھرا ہوا ہے اور یہاں بہت اچھی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔
ہمارے سمندر کا پانی اتنا صاف ہے کہ مالدیپ جانے کی ضرورت نہیں
خالد احمد کا کہنا ہے کہ ہمارے سمندر کا پانی اتنا صاف ہے کہ ہمیں مالدیپ جیسے ملکوں میں جانے کی ضرورت نہیں، یہاں ہر چیز دستیاب ہے جو باہر کے ممالک میں آپ کو چاہیے بس یہاں سہولیات کا فقدان ہے۔
ڈی ایچ اے کا مرینا کلب کیا ہے؟
ڈی ایچ اے کے مرینا کلب کے حوالے سے خالد احمد بتاتے ہیں کہ یہ ایسا کلب ہے جہاں فشنگ اور سمندر میں سفر کے لیے ہر طرح کی سہولت فراہم کی گئی ہے، آپ کو بذریعہ سڑک اپنی کشتی کو لانا، اسے پارک کرنا ، سمندر میں لیکر جانا، مرمت کرنا یا فیول بھرنا ہو، مرینا کلب ہر طرح کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
مارلن مچھلی کا شکار مشکل کیوں؟
210 کلوگرام وزنی مارلن مچھلی کا شکار کرنے والے خالد احمد کہتے ہیں کہ جب آپ مارلن مچھلی پکڑنے جاتے ہیں تو اس کے ساتھ آپ کسی اور مچھلی کا شکار نہیں کرسکتے کیوںکہ اس کے شکار کے لیے استعمال ہونے والے آلات صرف مارلن کے لیے ہی استعمال ہو سکتے ہیں، اگر آپ مارلن کے شکار کے لیے نکلے ہیں تو پھر آپ کے پاس کسی اور مچھلی کے شکار کا کوئی موقع نہیں ہوتا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مارلن مچھلی کا شکار انتہائی صبر والا کام ہے، ایک بار وہ 14 گھنٹے تک اس مچھلی کی تلاش میں رہے لیکن خالی ہاتھ واپس آنا پڑا لیکن اب کی بار اللہ نے اپنا کرم کیا۔
اندازہ ہو گیا تھا کہ کوئی بڑی مچھلی ہاتھ لگی ہے
خالد احمد کہتے ہیں کہ وہ سمندر میں 2 دن کے لیے گئے تھے اور پہلے ہی دن ایک مارلن ٹکرائی مگر ہاتھ سے نکل گئی، دوسرے دن آخری پہر اس مارلن سے ٹکراؤ ہوا، جب مچھلی کنڈے میں پھنسی تو ریل کی لائن باہر نکلنے لگی اور ٹرکر نے آواز دینا شروع کردی، جس طرح وہ ٹرکر چیخ رہا تھا اس سے اندازہ ہوا کہ کوئی بڑی مچھلی ہے لیکن انہیں اس بات نہیں پتہ تھا کہ ان کے کانٹے میں کیا پھنسا ہےکیونکہ جب تک مچھلی خود کو ظاہر نہ کرے اس وقت تک اس بارے پتہ نہیں چلتا، تاہم مچھلی نے صرف ایک بار خود کو ظاہر کیا اور پھر یہ دوبارہ بیٹھ گئی۔
جنگ ابھی باقی تھی
اینگلر خالد احمد مزید بتاتے ہیں کہ یہ سارا ایک ٹیم ورک تھا، مچھلی کے ساتھ ان کی 2 گھنٹے تک جنگ جاری رہی اور اس وقت ان کا سارا دھیان مچھلی پر تھا، اس دوران ہاشم اور شاہد نے اپنا کردار ادا کیا اور وہ کشتی کے انجن اور لائن کی پوزیشن کو دیکھتے رہے کیونکہ لائن یعنی تار کی جگہ اور انجن میں فاصلہ ضروری ہوتا ہے بصورت دیگر لائن کٹ جائے یا اس میں ذرا بھی ڈھیلا پن آئے تو مچھلی اپنے منہ سے کانٹا نکال لیتی ہے۔
عام پاکستانی اس شوق کو کیسے پورا کرسکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں خالد احمد نے بتایا کہ یہ بہت مہنگا شوق ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہت سے لوگ کرائے کی کشتی پر جاتے ہیں جبکہ ایسے بھی کئی لوگ ہیں جو لکڑی کی کشتی لیکر جاتے ہیں اور مارلن پکڑ لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ اس شوق کو پورا کرنے کے لیے گروپ کی شکل میں جاتے ہیں لیکن وہ خود انفرادی طور پر اپنی کشتی لیکر سمندر میں جاتے ہیں۔
بڑی مچھلی کے شکار میں کس چیز کا خطرہ ہوتا ہے؟
خالد احمد کے مطابق بڑی مچھلی میں پوری صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ آپ کو پانی میں گرا دے، وہ اسی لیے اپنے ٹیم ممبرز شاہد اور ہاشم کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں تاکہ وہ بڑی مچھلی کو سنبھال سکیں۔
بڑی مچھلی کو کشتی پر کیسے لایا جاتا ہے؟
اس حوالے سے خالد احمد کا کہنا تھا کہ جب مچھلی کو شکار کے بعد اوپر لایا جاتا ہے تو یہ آخری اور مشکل کام ہوتا ہے کیوں کہ جس مچھلی کا شکار انہوں نے کیا تھا یہ بہت بڑی تھی، اس کو قابو کرنا بھی اتنا ہی مشکل تھا، مچھلی اوپر آئی تو انہوں نے راڈ چھوڑ دیا تھا اور اب شاہد اور ہاشم کا کام تھا کہ وہ مچھلی کو قابو میں کریں، یہ اتنی بڑی مچھلی تھی کہ اس کو پوری طرح سے اوپر چڑھانا ممکن نہیں تھا۔
مارلن کو شکار کے بعد واپس لانا کیسا تھا؟
خالد احمد کہتے ہیں کہ یہ ساڑھے 10 فٹ لمبی اور 5 فٹ چوڑی مچھلی تھی، اس مچھیلی کا کچھ حصہ ہی کشتی میں آیا، آدھی مچھلی کشتی سے باہر ہی تھی۔
مارلن مچھلی کا گوشت کہاں گیا؟
خالد احمد کے مطابق اس مچھلی کا گوشت یہاں نہیں کھایا جاتا بلکہ اسے بیرون ملک برآمد کر دیا جاتا ہے، اس مچھلی کے گوشت کے بارے میں انکا کہنا تھا کہ اس میں تیل بہت ہوتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں اس کا گوشت نہیں کھایا جاتا۔
یہ کشتی ہے یا گھر؟
خالد احمد کا کہنا ہے کہ ان کی کشتی بہت مہنگی ہے جسے امریکا سے پاکستان لایا گیا، اس کشتی کی خاص بات یہ ہے کہ بظاہر تو اس میں سیٹیں اور دیگر آلات ہیں لیکن جب اس کے تہہ خانے میں جائیں تو وہاں 4 افراد کے سونے اور کھانے کی جگہ، ایک غسل خانہ، ریفریجریٹر، چولہے اور ٹیلی ویژن کے ساتھ ساتھ وہ سب کچھ آپ کو نظر آئے گا جو ایک گھر کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔