حق خودارادیت کے حصول کے لیے کشمیری عوام کی طویل جدوجہد کی کہانی

جمعہ 27 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کنٹرول لائن کے دونوں اطراف اور دُنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے 27 اکتوبر کو کشمیر پر بھارت کے جبری قبضے کے خلاف یوم سیاہ منایا اور بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف کشمیراور پاکستان سمیت دُنیا بھر میں احتجاجی مارچ، ریلیاں اور سیمینارز منعقد کیے۔

پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے 27 اکتوبر کو یوم سیاہ کی مناسبت سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ایک خصوصی ویڈیو جاری کرتے ہوئے لکھا،  ’ دی ٹریو ورژن : کشمیر ڈسپیوٹ‘ کے نام سے یہ دستاویزی فلم  کشمیری عوام کے حوصلے، حق خودارادیت کے لیے ان کی ایک طویل جدوجہد کی ان کہی کہانیوں کو بخوبی پیش کرتی ہے‘۔

وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے ’ایکس‘ پر پوسٹ کی گئی یہ دستاویزی فلم سابق حریت رہنما سید علی گیلانی (مرحوم)، میر واعظ مولوی عمر فاروق، سابق وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف احمر بلال صوفی، مشال ملک، چیئرمین کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز الطاف حسین وانی، امریکا کی ماہر تعلیم اور انسانی حقوق کی سرگرم رکن میری اسکلی کے کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کے بارے میں تاثرات پر مبنی ہے۔

سید علی شاہ گیلانی (مرحوم)

دستاویزی فلم میں سابق حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی مرحوم کہتے ہیں کہ ’ جموں کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں ہے، یہ ایک متنازع علاقہ ہے اور اس کے مستقل حل کے لیے عوام کو حقِ خودارادیت دیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔

میر واعظ مولوی عمر فاروق

حریت رہنما میر واعظ مولوی عمر فاروق کہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں یہاں کوئی جمہوریت نہیں ہے، یہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہے، احتساب نہیں ہے، یہ کوئی راز نہیں ہے کہ دُنیا میں کہیں بھی فوجی دستوں کی سب سے زیادہ تعداد جموں کشمیر میں ہے اور یہ فوجی یہاں عسکریت پسندی سے لڑنے کے لیے نہیں ہیں، یہ یہاں عام لوگوں سے لڑنے آئے ہیں۔

مشال ملک

حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ اور انسانی حقوق کی سرگرم رکن مشال ملک نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کے جذبہ حریت کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس کا راز ہمارا ایمان ہے، ہمارا اپنے اللہ رب العزت پر غیر متزل یقین ہے۔

سابق وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف احمر بلال صوفی

سابق وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف احمر بلال صوفی کو اس ویڈیو میں کہتے سنا جاسکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت سلامتی کونسل میں لے جایا گیا۔ میری رائے میں مسئلہ کشمیر پر قراردادیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب 7 میں منظور کی گئی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ان کی پابندی لازم ہے اور انہیں برقرار رکھا جانا چاہیے۔

احمر بلال صوفی کے مطابق ان میں سے کوئی بھی قرارداد واپس نہیں لی گئی، اور ان میں سے کسی کوبھی منسوخ نہیں کیا گیا، اس لیے وہ ابھی تک مؤثر ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر فریم ورک کی قانونی دستاویز ہیں اور وہ کشمیریوں کو یہ حق دیتی ہیں کہ ان کا سرزمین سے متعلق حق سلامتی کونسل کے فریم ورک کے تحت ان کی مرضی کی تصدیق سے مشروط ہے، مگر ایسا اب تک نہیں ہوسکا۔

احمر بلال صوفی کے مطابق قبضے کا قانون جو کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ہے وہ یہ ہے کہ آپ آبادیاتی تبدیلیاں نہیں لا سکتے، آپ مقامی لوگوں کو ملک بدر نہیں کر سکتے۔ آپ ان کی عام زندگی کا انتظام کرنے کے طریقے کو تبدیل نہیں کر سکتے، آپ کرنسی تبدیل نہیں کر سکتے، آپ کوئی مادی تبدیلی نہیں لا سکتے۔

چیئرمین کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز الطاف حسین وانی

چیئرمین کشمیرانسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز الطاف حسین وانی نے کہا کہ 1989 سے 2020 تک کشمیر میں تقریباً 97000 لوگ مارے جا چکے ہیں، تقریباً 10 ہزار لوگوں کو جبری طور پر لاپتا کر دیا گیا ہے، آپ کو کشمیر کے مختلف حصوں میں 8 ہزار سے زیادہ بے نشان قبریں ملیں گی۔

اس طرح کشمیر میں تقریباً 11 ہزار خواتین کو مختلف طریقوں سے تلاشی اور محاصرے کی کارروائیوں میں بھارتی فوج نے جنسی طور پر ہراساں کیا یا اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

امریکا کی ماہر تعلیم اور انسانی حقوق کی سرگرم رکن میری اسکلی

امریکی ماہر تعلیم اور انسانی حقوق کی سرگرم رکن میری اسکلی نے کہا کہ بھارت نے جو کچھ کیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے ایسی زرعی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے جو طویل عرصے سے کشمیریوں کی آبائی جائیداد اور آبائی وطن ہیں اور ہندوستانی فوج نے اب ان زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اور آبادی کو ڈرانے اور دہشت زدہ کرنے کے لیے ان زمینوں کو طویل مدتی فوجی تنصیبات، شوٹنگ رینجرز کے لیے اپنے فوجیوں کو چھاؤنی کے لیے خریدنا نہیں بلکہ ان پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔

دُنیا جموں کشمیر پر سے بھارت کا جبری قبضہ ختم کرائے، انوار الحق کاکڑ

یوم سیاہ پر ویڈیو شیئر کرنے کے علاوہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس دن کی مناسبت سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ  بھارت 27اکتوبر1947 سے بھارتی غیرقانونی طور پر مقبوضہ جموں کشمیر میں اپناغاصبانہ قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہے، کشمیریوں کی 3 نسلیں دنیا خصوصاً اقوام متحدہ کے غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کا انتظار کر رہی ہیں، عالمی برادری اب اپنی ذمہ داری سےآنکھیں نہیں چرا سکتی، بھارتی حکومت کو 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو واپس لینا چاہیے۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے 27 اکتوبر 2023 کے دن کی مناسبت سے ’یوم سیاہ‘کے موقع پراپنے پیغام میں کہا کہ آج جموں کشمیر کے بڑے حصے پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو 76 سال بیت گئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ گزشتہ 76 برسوں میں بھارت نے جموں کشمیر پر اپنی غیر قانونی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے آزمائے ہیں تاہم، بھارت نے5 اگست 2019 سے ایک مذموم مہم کا آغاز کر رکھا ہے جس کے تحت کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین میں ایک بے اختیار کمیونٹی میں تبدیل کرنے کی گھناؤنی سازش زوروں پر ہے۔

بھارت نے ان مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں جیسا کہ انتخابی حلقوں میں ردوبدل، انتخابی فہرستوں میں غیر کشمیریوں کا اضافہ، کشمیر سے باہر کے لوگوں کو دھڑادھڑ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا اجرا اور زمینوں اور جائیدادوں کی ملکیت سے متعلق نئے قوانین متعارف کرانا ہے۔ یہ غیر جمہوری اور غیرقانونی اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن کی براہ راست خلاف ورزی ہیں۔

کشمیر دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں سب سے زیادہ قابض فوج تعینات ہے

وزیراعظم نے کہا کہ آج کشمیر دنیا کا ایک ایسا خطہ ہے جہاں سب سے زیادہ قابض فوج تعینات ہے، کشمیری عوام کے حقیقی نمائندے برسوں سے غیر معینہ مدت تک پابند سلاسل ہیں، جبر کو چھپانے اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے میڈیا پر پابندیاں بڑے پیمانے پر مسلط کی جا رہی ہیں۔

 انہوں نے کہاکہ گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران ہزاروں بے گناہ کشمیری مرد، خواتین اور بچے بھارتی بربریت کے ہاتھوں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں تاہم بھارت کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کو دبانے میں ناکام رہا ہے۔

وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان ہمیشہ کی طرح اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے، پاکستان کشمیریوں کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے ان کی منصفانہ جدوجہد کے لیے اپنی مکمل اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔

کشمیریوں کے مصائب کی داستان 7 دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط

کشمیریوں کے مصائب کی داستان 7 دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے، اس کا آغاز 27 اکتوبر 1947 کو جموں کشمیر میں بھارتی فوج کے دستوں کے کشمیر کی سرزمین پر اترنے کے ساتھ ہی شروع ہوا۔ بھارت نے اس دِن کشمیریوں کی مرضی کے خلاف اور آزادی ایکٹ کے منصوبے کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں کشمیر پر زبردستی قبضہ کر لیا۔

بھارت کی طرف سے علاقے پر زبردستی قبضہ مہاراجہ ہر سنگھ کے 26 اکتوبر 1947  کو دستخط شدہ الحاق کے ایک غیر قانونی دستاویز پر مبنی ہے جو اکتوبر 1947 میں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والے کشمیریوں کے احتجاج کے خوف سے نئی دہلی فرار ہو گئے تھے۔

5 اگست 2019 کو بھارتی اقدامات عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی

5 اگست 2019 کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے جموں کشمیر کی خصوصی خود مختار حیثیت کو منسوخ کرتے ہوئے بھارتی آئین کے آرٹیکل  کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے جموں کشمیر کی خصوصی خود مختار حیثیت کو منسوخ کرتے ہوئے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔

آرٹیکل 370 ہندوستانی آئین کی ایک شق تھی جس نے ریاست جموں کشمیر کو ایک خصوصی درجہ دیا تھا، جس نے ریاست کو اپنا آئین، ایک الگ جھنڈا اور تمام معاملات پر آزادی کی اجازت دی تھی۔ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 35 اے نے جموں کشمیر کی ریاستی حکومت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کر سکے کہ ریاست کے مستقل رہائشی کے اہل کون ہیں۔

بی جے پی حکومت وادی میں غیر کشمیریوں کو آباد کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے

حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) وادی میں غیر کشمیریوں کو آباد کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے، جس سے ممکنہ طور پر نسلی تطہیر اور خطے میں مسلم آبادی کی آبادیاتی برتری کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے تنازعات پیدا ہوں گے۔ اس کے بعد غیر قانونی یونین ٹیریٹری حکومت نے جموں اور کشمیر میں باہر کے لوگوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی ایک حیران کن تعداد جاری کی۔

حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے نریندر مودی کی حکومت سے پوچھا ہے کہ ملک کے آئین میں درج مقبوضہ جموں کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کرنے کے لیے کتنا وقت درکار ہے، 4 سال تک بھارتی سپریم کورٹ نے اس کیس کو نہیں لیا، اس نے ہندوستانی حکومت کو کشمیر میں جو چاہے تبدیلیاں کرنے کی اجازت دی اور وہ آج تک کرتی آ رہی ہے۔

27اکتوبر 1947 کو مقبوضہ علاقے پر بھارتی فوج کی جارحیت اور 5 اگست 2019ء کو مودی کی فسطائی حکومت کی طرف سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی مذمت کے طورپر مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی۔

 بھارتی فوجیوں نے 27 اکتوبر 1947 کوتقسیم برصغیر کے فارمولے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں کشمیر پر حملہ کرکے کشمیری عوام کی خواہشات کے برعکس اس پر غیر قانونی طورپرقبضہ کرلیا تھا۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے غیر قانونی طور پر نظربند چیئرمین مسرت عالم بٹ اور سینیئر رہنماؤں شبیر احمد شاہ اور نعیم احمد خان نے نئی دلی کی تہاڑ جیل سے جاری اپنے پیغامات میں کشمیریوں سے کہا  کہ وہ حریت کانفرنس کی اپیل پر ہڑتال اور یوم سیاہ منا کر دنیا کو ایک واضح پیغام دیں کہ وہ بھارتی تسلط سے آزادی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے دیگر رہنماؤں پروفیسر عبدالغنی بٹ، محمد یوسف نقاش، جاوید احمد میر، مولانا نثار احمد اور محمد اقبال میر نے سرینگر میں اپنے بیانات میں عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ کشمیریوں کی امنگوں اوراقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کےمطابق تنازع کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔

مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں مزید پوسٹرزچسپاں کیے گئے، جن میں لوگوں سے ہڑتال کو کامیاب بنانے کی اپیل کی گئی ہے ۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کی بیٹی التجامفتی نے جو ان کی میڈیا ایڈوائزر بھی ہیں ایک میڈیا انٹرویو میں کہا ہے کہ مودی حکومت پی ڈی پی پر پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن سے نکلنے کے لیے شدید دباؤ ڈال رہی ہے جو2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

مودی حکومت کی طرف سے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد علاقائی سیاسی جماعتوں نے پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن تشکیل دیا تھا ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp