کرکٹ، تہذیب اور پاکستانی کھلاڑی

اتوار 29 اکتوبر 2023
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دشمن کی ترقی اور بعض شعبوں میں اس کی برتری کا اعتراف نہ کرنا بزدلی ہے لیکن معاملہ اعتراف سے گزر کر مرعوبیت تک جا پہنچے تو کیا خرابی رونما ہوتی ہے؟ یہی سوال آج زیر بحث ہے۔ اس سوال پر برسوں غور کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس ریاضت کی ابتدا اپنے ایک پیارے کی بھارت یاترا سے ہوئی لیکن کرکٹ کے ورلڈ کپ کے موقع پر قومی ٹیم کی کارکردگی نے اس کو واضح اور ٹھوس شکل عطا کر دی ہے۔

ایک صحافی دوست کو 1995 اور اس کے بعد کئی برس تک بار بار بھارت جانے کا موقع ملا۔ وطن واپسی پر ہر بار وہ بھارت کے گن گاتے ہوئے لوٹے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ ملک زندگی کے مختلف شعبوں میں جتنی ترقی کر چکا ہے، اس کے بعد ہمارا اس سے کوئی مقابلہ نہیں رہا۔ ہماری قسمت میں اب اس کی پیروی بلکہ کاسہ لیسی لکھ دی گئی ہے۔ یہ دوست بھارت سے کیسے کیسے مرعوب ہوئے، اس کی تفصیلات طویل ہیں۔ سامنے کی بات کرتے ہیں۔ ان دنوں بھارت میں تازہ تازہ گیت گایا اور فلمایا گیا تھا۔ گیت کے بول اور موسیقی ظاہر ہے کہ اچھی تھی۔ سننے والے کو پسند بھی آتی تھی اور اس کے بول آسانی سے زباں پر جاری بھی ہو جاتے تھے۔ اس گیت کے بول تھے:

‘ یہ دنیا اک دلہن

دلہن کے ماتھے کی بندیا

آئی لو مائی انڈیا’

اچھی موسیقی کو پسند نہ کرنا اور داد نہ دینا کور ذوقی اور زیادتی ہے لیکن کسی ملک کا ملی نغمہ ہمہ وقت آپ گنگناتے رہیں، یہ نغمے اور اس کے تخلیق کاروں کی کمال درجے کی کامیابی تو ہے لیکن اس سے متاثر ہو کر اس کے زیر اثر آ جانے والے لوگوں کے بارے میں زیادہ سخت بات بھی کی جائے تو حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنی فکر کے اعتبار سے خام اور نا پختہ ہوتے ہیں۔ گزشتہ تقریباً 3 دہائیوں کے مشاہدے اور اس موضوع پر مسلسل غور کے بعد بد قسمتی سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بھارت سے مرعوبیت کا یہ سلسلہ جس کا آغاز شوبز سے ہوا تھا، اب ہماری نفسیات پر بری طرح اثرانداز ہو چکا ہے جس سے ہماری معمول کی زندگی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔

ہماری معمول کی زندگی پر بھارتی طور طریقے کس طرح اثر انداز ہوئے ہیں، اس کی ایک عبرت انگیز مثال ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں دیکھنے کو ملی۔ ہمارے یہاں یہ بہت کہا جاتا ہے کہ ہماری فلمی صنعت ایک بار پھر پاؤں جما رہی ہے اور نوجوان فلم ساز اس ضمن میں بڑی محنت سے کام لے رہے ہیں۔ ایسا ہی ہو گا لیکن جب سے یہ کہا جا رہا ہے تب سے ہی بعض دوستوں کی سفارش پر یا تشہیر سے متاثر ہو کر کئی فلمیں دیکھیں لیکن ہر دفعہ مایوسی ہوئی۔ یہ فلمیں دیکھ کر جس قسم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس کے لیے مایوسی کا لفظ کچھ کمزور محسوس ہوتا ہے۔ یہ کہنا بہتر ہوتا ہے کہ انسان سینما گھر سے بدمزہ ہو کر لوٹتا ہے۔ سبب کیا ہے؟ سبب صرف یہ ہے کہ ان فلموں میں سوائے بھونڈی نکالی کے کچھ اور نہیں ہوتا۔ یہ نکالی کس کی ہوتی ہے؟ یہ اس انٹرویو سے واضح ہوا جس کا ابھی ذکر کیا گیا۔ ان صاحب کا نام تو ذہن میں نہیں لیکن انہوں نے ایک فلم بنائی تھی جس کے ریلیز ہونے کے بعد خواہ تشہیری مہم کے ضمن میں یا کسی ٹیلی ویژن چینل کی صبح کی نشریات میں انہیں میرٹ پر مدعو کیا گیا، حقیقت کچھ بھی ہو لیکن ان صاحب نے اپنی گفتگو میں جس قسم کے الفاظ فراوانی سے استعمال کیے، اس سے پہلے تو مجھے اپنے صحافی دوست یاد آئے پھر اپنی فلمی صنعت کے مستقبل کی ایک جھلک دکھائی دی۔

اس فلم ساز کو اپنے کہانی کار، مکالمہ نویس اور اداکاروں پر فخر کرنا چاہیے اور وہ ایسا ہی کر رہے تھے لیکن اس مقصد کے لیے وہ فخر کا آسان ترین اور اردو کا زبان زد عام لفظ استعمال کرنے کے بجائے ہندی کا لفظ ’ گرو‘ استعمال کر رہے تھے۔

ان ہی دنوں موسیقی کے ذریعے ہمارے دلوں میں راحت بھر دینے والے ایک گلوکار کی گفتگو سننے کا موقع بھی ملا، اس گفتگو میں وہ ایک لفظ ’منچ‘ بار بار استعمال کر رہے تھے جیسے میں منچ پر آیا تو میں نے یہ گایا وغیرہ۔ ایسی ہی ایک مثال اور بھی ہے۔ کچھ عرصہ قومی تفاخر کے جذبے کے پیش نظر ایک فلم ہمارے یہاں بنی جس میں پاکستانی ڈرامے کی ایک ہونہار اداکارہ کو ایک اچھا کردار دیا گیا۔ بات کردار تک رہتی تو غنیمت تھی لیکن ان سے آئٹم سانگ بھی پیش کروایا گیا۔ یہ آئٹم سانگ کون سی فلمی صنعت کی اختراع ہے؟ محتاج بیان نہیں۔ کسی چیز کی پیروی میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے لیکن نقل کا بھی ایک اصول ہے۔ اصول یہ ہے کہ کسی خیال یا تصور نے آپ کو متاثر کیا، اسے اختیار یا اس کی پیروی کرتے ہوئے آپ پر لازم ہے کہ آپ اسے اپنی روایت اور تہذیب کے مطابق زیادہ بہتر بنا کر پیش کریں۔ ایسا نہیں کرنا اور مکھی پر مکھی ہی مارنی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہو گا کہ آپ نمبر ون کبھی نہیں ہو سکیں گے کیوں کہ جسے آپ نقل کر رہے ہیں وہ آپ سے بہتر کام کر رہا ہے اور جو بہتر کام کرتا ہے، اس کی جگہ آپ کبھی نہیں لے سکتے۔ صرف وہ ہو سکتا ہے جس کی بھونڈی نقل دنوں ہماری فلم اور ڈرامے میں دکھائی دیتی ہے۔

زندگی کے مختلف بلکہ اہم مواقع پر اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے قسم اٹھانا انسانی سرشت میں شامل ہے۔ اس کا ایک سبب شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے کلام میں ایسا ہی کیا ہے۔ یہاں تک تو درست ہے کہ قسم ہماری نفسیات اور روزمرہ میں شامل ہے لیکن قسم کھاتے ہوئے اپنے گلے پر منی سی چٹکی کاٹنا کہاں کی روایت ہے؟ میں نے جتنی بھی تحقیق کی ہے، پاکستانی بلکہ مسلم معاشرت میں تو اس کی کوئی بنیاد دستیاب نہیں ہوئی پھر یہ چیز کہاں سے آئی؟ بھارتی فلم اور ڈرامہ دیکھنے والے جان سکتے ہیں کہ یہ رجحان انہوں نے شاید مغربی ملکوں سے اختیار کیا اور ان کی دیکھا دیکھی ہمارے یہاں بھی رائج ہو گیا۔ اب ہمارے بچے اپنی معمول کی گفتگو میں ایسا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ گویا اجنبی تہذیب کے مظاہر ہمارے تہذیبی مظاہر کی جگہ لے رہے ہیں۔

تہذیبیں کوئی جامد شے نہیں ہوتیں، چلتے پانی کی طرح ہوتی ہیں۔ علمی ترقی کے ساتھ نئے رجحانات اور نئی عادات پرانی عادات کی جگہ لیتی رہتی ہیں لیکن جب علمی ترقی کا سفر رک جائے یا سترہ رفتاری کا شکار ہو جائے تو افراد معاشرہ کو نہ اپنے تہذیبی امتیاز کی خبر رہتی ہے اور نہ وہ اپنی زبان اور طور طریقے برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ان کی حالت اسی صحافی جیسی ہو جاتی ہے جو بے دھیانی میں بھی ’آئی لو مائی انڈیا‘ کے بول گنگناتا پایا جاتا تھا۔ کوئی سماج جب تہذیبی تنزل کے اس مقام پر پہنچ جائے، وہ خود اعتمادی سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کی تخلیقی صلاحیت بانجھ ہونے لگتی ہے اور وہ غیروں سے اس قدر مرعوب ہو جاتا ہے کہ کھیل کے میدان میں بھی اس کے لیے مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیے، صرف کرکٹ کے شعبے میں ہی اس نسل کا موازنہ آج کی نسل سے کر لیجیے جو بھارتی فلم انڈسٹری کے عروج سے پہلے کی تھی۔ فرق نکھر کر سامنے آ جائے گا۔

حرف آخر صرف یہ ہے کہ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے عہد میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی قوم اپنے ارد گرد لوہے کی دیوار تعمیر کر کے خود کو محفوظ کر لے۔ ہاں! یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ اپنے قومی مقاصد پر توجہ دے کر اپنے لوگوں کو مرعوبیت کے مرض سے نجات دلا دی جائے۔ اہل پاکستان کی کارکردگی نا صرف کرکٹ بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں شاندار ہو جائے گی۔ اس کام میں تاخیر کی گئی یا اس پر توجہ ہی نہ دی گئی تو یہ سب کارخانہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں بدل جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp