سیاسی جماعتوں کے برعکس عدالتوں کو عوامی حمایت کی ضرورت نہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ

پیر 30 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نیب قانون میں ترامیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے رکن جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ جاری کردیا گیا ہے، جس کے مطابق انہوں نے قانون سازی جانچنے کو پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف قرار دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 15 ستمبر کو نیب قانون میں پارلیمنٹ کی ترامیم کو ایک کے مقابلے پر 2 کی اکثریت سے کالعدم قراردیا تھا، تاہم بینچ میں شامل جسٹسس منصورعلی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا۔

فیصلے کیخلاف جسٹس منصور علی شاہ کا جاری کردہ 27 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کردیا گیا ہے، جس میں امریکی جج بنجمن کارڈوزو کے قول سے اپنے نوٹ کا آغاز کرتے ہوئے لکھا  ہے کہ اکثریت کی آواز طاقت کی فتح کی ہوسکتی ہے، انٹونیا اسکالیا نے درست کہا تھا اختلاف عدالت کے وقار کو کم کرنے کے بجائے بڑھاتا ہے۔

’عدالتوں کو ہنگامہ آرائی سے بالا اور بدلتی سیاست سے بے نیاز ہوکر جمہوریت کے مستقبل پر نگاہیں جمانی چاہیے، سیاسی جماعتوں کے برعکس عدالتوں کو عوامی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، عدالتوں کو آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے، بھلے عوامی جذبات ان کے خلاف ہوں۔‘

اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ درخواست گزار نیب ترامیم کو عوامی مفاد کے برعکس ثابت کرنے میں ناکام رہا، عدلیہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کا جائزہ انسانی حقوق سے متصادم ہونے کی صورت میں لے سکتی ہے،  قانون سازوں کےمفاد کو سامنے رکھ کر قانون سازی جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔

اختلافی نوٹ میں تحریر ہے کہ درخواست گزار نہیں بتا سکا کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کا فوجداری قوانین کے تحت احتساب کیسے بنیادی حق ہے، جب کہ نیب ترامیم کے ترامیم کے حوالے سے درخواست گزار کے بنیادی حقوق کا موقف غیر یقینی ہے۔

’اگر درخواست گزار کے بنیادی حقوق سے متعلق ایسا موقف تسلیم کیا گیا تو پارلیمان کیلئے کسی بھی موضوع پر قانون سازی مشکل ہوگی، عدلیہ کو اس وقت تک تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے جب تک آئینی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو۔‘

جسٹس منصور شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ جمہوریت کی بقاء کے لیے باہمی برداشت اور تحمل لازمی ہے، فیصلے سے متفق نہیں کیونکہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے اوراکثریتی فیصلہ پبلک سرونٹ کی درست تعریف کرنے میں ناکام رہا۔

ان کا موقف ہے کہ عوامی ووٹوں سے منتخب پارلیمنٹ نے نیب قانون میں ترامیم کیں جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے نیب ترامیم کی مخالفت یا حمایت کے بجائے اسے عدالت میں چیلنج کر دیا۔ ’تعزیرات پاکستان کے تحت بھی پبلک آفس ہولڈر کے خلاف کارروائی ممکن ہے کیونکہ تعزیرات پاکستان کے تحت پبلک آفس ہولڈر پبلک سرونٹ ہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp