دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے موسم تبدیل ہورہا ہے اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ فضائی آلودگی ایک عالمی خطرہ ہے اور اس کے اثرات انسانی صحت، موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی نظام پر ہوتے ہیں۔ فضائی آلودگی کے باعث دنیا بھر میں ہر سال 70 لاکھ اموات ہوتی ہیں۔
پاکستان اور بھارت کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو فضائی آلودگی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں اور ان ممالک میں اوسط عمر میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بڑھتی فضائی آلودگی شہریوں کی اوسط عمر میں چار سال تک کی ممکنہ کمی کا باعث بن سکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی 28 نومبر 2022 کو چھپنے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں گھریلو فضائی آلودگی کے باعث 32 لاکھ اموات ہوئیں، جس میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 2 لاکھ 37 ہزار تھی۔
دنیا بھر میں لوگ فضائی آلودگی سے متعلق بیماریوں سے زیادہ مرتے ہیں۔ اور پاکستان کے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی کی سطح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔
موسم سرما میں فضائی آلودگی/ اسموگ کیوں بڑھ جاتی ہے؟
سردیوں کے آمد کے ساتھ ہی ہوا میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور ہمسایہ ملک سے دھوئیں کے بادل بھی آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب درجہ حرارت کم ہوتا ہے تو یہ ذرات جم جاتے ہیں اور اس کو اسموگ کا سبب خیال کیا جاتا ہے۔
میٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل مہر صاحبزاد خان نے بتایا کہ کیونکہ سردیوں میں ہوا خشک اور ٹھنڈی ہوتی ہے اس وجہ سے ہوا میں موجود ذرات اور گیسز سرد ہوا میں جکڑے رہتے ہیں اور یہی آلودگی ہوا کے گرد ایک تہہ بنا لیتی ہے اس لیے ہوا میں آلودگی موجود رہتی ہے۔ جبکہ گرمیوں میں ہوا کی آلودگی کم ہونے کے پیچھے وجہ بھی یہی ہے کہ زہریلی گیسیں اور ہوا کو آلودہ کرنے والے ذرات گرم ہوا کی تپش کے باعث بکھر جاتے ہیں اور ہوا زیادہ ترو تازہ اور صاف لگتی ہے۔
پاکستان میں اسموگ کے مسئلے نے 2015 میں اس وقت شدت اختیار کی جب موسم سرما کے آغاز سے پہلے لاہور اور پنجاب کے بیشتر حصوں کو شدید دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
پاکستان میں اسموگ کے سیزن کا آغاز اکتوبر سے شروع ہوتا ہے اور یہ جنوری تک جاری رہتا ہے۔ اور اس سے فوری ریلیف صرف بارش سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں ہرسال اسموگ کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک میں کمی ہوتی ہے بلکہ کئی پروازیں بھی منسوخ ہوتی ہیں۔
فضائی آلودگی/ اسموگ سے عام طور پر پیدا ہونے بیماریاں
میٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل مہر صاحبزاد خان کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سانس کی بیماریاں (کھانسی، نزلہ، زکام، دل، دمہ، آنکھ، جلد کے امراض، پھیپھڑوں کا کینسر، ذیابیطس اور برین اسٹروک) جیسی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی ہدایات کے مطابق ہوا میں موجود گیسوں کی مقدار PM 2.5 ہو تو اسے صاف ہوا کہا جا سکتا ہے۔
بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق سال 2019 میں فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا میں تقریباً 40 لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔
پاکستان میں فضائی آلودگی کی وجہ سے 86 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
ہر سال فضائی آلودگی دنیا میں تقریباً 20 فیصد نوزائیدہ بچے موت کا شکار بنتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد اسموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب اسموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں ہی میں رہنا چاہیے۔
فضائی آلودگی کا حل کیا ہے اور اس سے بچاؤ کے لیے کیا کریں؟
صنعتی انقلاب اور جدید ٹیکنالوجی نے جہاں انسان کو سہولیات اور آسانیاں فراہم کی ہیں، وہیں ماحول کو شدید نقصان بھی پہنچایا ہے۔ فضائی آلودگی انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے، جس کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ جن پر عمل کرکے لاکھوں زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔
شہر میں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی تعداد کم سے کم کرنا ہو گی، جگہ جگہ کچرا پھینکنے اور اسے جلانے سے گریز کرنا ہو گا، فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے دھوئیں کے اثرات کم کرنے کے لیے فلٹرز کے استعمال کو یقینی بنایا جائے۔ باہر گھومنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں۔
اس کے علاوہ فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے شجر کاری مہم شروع کرنی ہو گی اور پہلے سے موجود جنگلات کا تحفظ کرنا ہو گا۔ ساحلی جنگلات کی تعداد میں اضافہ کرکے بھی فضا میں موجود کاربن ختم کرنے کی صلاحیت کو دگنا کیا جاسکتا ہے۔
میٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل مہر صاحبزاد خان نے کہا کہ احتیاطی تدابیر کے طور پر فضائی آلودگی کے دوران باہر جانے سے گریز کریں، غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں، بند گاڑیوں میں سفر کریں۔ اور ضرورت کت مطابق چشمے، سن بلاک اور لوشن کا استعمال کریں۔