افغان مہاجرین کو دی ہوئی ڈیڈ لائن ختم ہو گئی! گزشتہ روز صبح سویرے اس خبر سے منہ کڑوا کرنے کے بعد گھر سے نکلا اور جی ٹین مرکز ،اسلام آباد میں موجود پاسپورٹ آفس کی عمارت میں پہنچ گیا۔ وہاں جا کر معلوم پڑا کہ صبح کے آٹھ بجے ہی میں لیٹ ہو چکا ہوں اور اب ایک طویل قطار میں لگ کر اپنے نمبر کا انتظار کرنا پڑے گا۔ پاسپورٹ آفس میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن صرف افغان مہاجرین کو نہیں دی گئی بلکہ ہر پاکستانی نوجوان کے ہاتھوں میں ڈیڈ لائن کا ایسا ہی مراسلہ موجود ہے، ‘پاکستان سے زندہ بھاگنے کی ڈیڈ لائن’۔
اب اگر اس ملک کی مقتدرہ نے لاکھوں افغان مہاجرین کو چار دہائیوں بعد نکالنے کا تہیہ کر ہی لیا ہے تو ایک گزارش اور بھی ہے، ان نوجوانوں کا بھی کچھ کیجیے، جو صبح سے شام تک قلعہ اسلام سے بھاگنے کی خاطر پاسپورٹ آفسز کا طواف کر رہے ہیں اور ان کی آخری خواہش یہی ہے کہ انہیں پاک سر زمین سے فرار کی کوئی راہ مل جائے۔
اگر قلعہ اسلام سے کافروں کے ملک میں ہجرت کر کے جانے والوں کو بھی یوں ہی نکالا جائے تو آپ کو کتنا اچھا لگے گا؟۔ اگر سارے اوورسیز واپس گھر بھیج دئیے جائیں تو یہ گھر کیسے چلے گا؟۔ اب یقیناً آپ وہ بیان پڑھ دیں گے کہ ہم تو صرف غیر قانونی مہاجرین کو نکال رہے ہیں لیکن جو یہاں پیدا ہوئے انہیں تو شہریت دی جا سکتی تھی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر)کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 38 لاکھ افغان مہاجرین آباد ہیں۔ وزارت داخلہ کے مطابق 17 لاکھ افغان ایسے ہیں جو کہیں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ لیکن اس میں بڑی تعداد ایسے خاندانوں کی بھی ہے جس کے کچھ افراد تو رجسٹرڈ ہیں جبکہ کچھ کی رجسٹریشن نہیں ہوسکی۔ اب یہ خاندان کیا تقسیم ہو جائیں گے یا پھر رجسٹرڈ افراد غیر رجسٹرڈ کے ساتھ جائیں گے، آپ خاموش ہیں۔
جو کمزور خواتین اور بچے سرد موسم میں سرحد پر ٹھٹھر رہے ہیں اس میں ان کا کیا قصور ؟ کچھ انسانی حقوق کے نام پر ہی شرم کر لیجیے۔ آپ کو یہ تو یاد نہیں کہ جس کو آپ خداد ریاست کہتے ہیں اس کے نوجوان یونان کے قریب بحیرہ روم کی گہرائیوں میں ڈوب کر مر گئے اور ان کے لاشے بھی بوڑھی مائیں دیکھ تک نہ سکی۔
آپ کو کیا لگتا ہے کہ کابل، تاشقند اور کوئٹہ میں قہوے کا مشترکہ رواج اور ذائقہ بدل گیا ہے؟ رباب و سارنگی ان علاقوں کا مشترکہ ساز نہیں رہا؟ ان گھروں کے نقش و نگار اور بازاروں کے فنِ تعمیر میں مماثلت باقی نہیں رہی؟ ان کی زبان و نسل ایک نہیں رہی اور انہیں ایک دوسرے سے کاٹ دینا بہتر ہے بلکہ آپ کو یہ بھی لگتا ہے کہ ناراض بلوچوں کو بولنے کا حق نہیں ہے۔ آپ کا چنیدہ بلوچ وزیراعظم گمشدہ لوگوں کی گمشدگی کو مسئلہ ہی نہیں سمجھتا یا شاید سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس ملک کے کرتا دھرتا ملت و قوم کے فلسفے اور دو قومی نظریے سے انکاری ہو چکے ہیں جس کا خواب علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا یا جیسے ظفر علی خان نے کہا تھا۔
اُخوت اس کو کہتے ہیں، چبھے کانٹا جو کابل میں
تو دہلی کا ہر اک پیر و جواں بے تاب ہو جائے
لیکن نہیں صاحب یہ لوگ ایک عرصے سے ایسی ہی دو قومیں بنانے میں لگے ہیں جہاں بنگالی شودر، برہمن پنجابی کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اور جہاں کے شہر اقتدار کی شاہراہوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے جہاں ایک ہی حدود میں دو پاکستان بستے ہیں ایک قوم وہ ہے جو ایک خاص ہاؤسنگ سکیم کی حدود سے باہر اپنے ہونے کا نوحہ لکھ رہی ہے اور دوسری جن کے سیاہ کو سفید کرنے کے لیے منصفین قطار در قطار پلکیں اور نظریں بچھائے بیٹھے ہیں۔
ایک وقت تھا جب کسی بڑے بوڑھے سے کوئی نوجوان پاکستان سے ہجرت کی بات کرے تو ان کی رگِ حب الوطنی پھڑک اٹھتی تھی اور وہ غصے میں آ جاتے تھے۔ لیکن آج وہی بزرگ جو وطن کی محبت کا وعظ دیا کرتے تھے اپنی کل جائیداد بیچ کر اپنے بچوں کو پاک سر زمین سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔
تو صاحب یہ صاحبانِ اقتدار اپنے شہریوں کو دوسرے درجے کا پاکستانی مانتے ہیں ان کو زندہ درگور کرنے کے درپے ہیں تو پھر ان سے کیا امید، کہ فسادِ افغانستان کے اقرار کے بعد، پنتالیس سال تک پھیلایا ہوا گند سمیٹیں گے اور اپنے بڑوں کی مسلط کی ہوئی جنگ کا نشانہ بننے، اس جنگ کی بنا پر دربدر ہونے والے لاکھوں انسانوں کو پناہ دیں گے۔
ان سے تو ایسے ہی بیانیے کی توقع ہے کہ یہ افغانی نمک حرام ہیں اور یہ بیانہ بھی نیا نہیں کل بنگالی احسان فراموش تھے پھر سندھی و مہاجر غدار بنے اور آج بلوچ نمک حرام ہیں اچھے تو بس وہ ریاستی نمائندے ہیں جنہوں نے سر پر علامتی سرخ ٹوپی پہن رکھی ہے افغانیوں کی نمک حرامی کے بیانیے پر ہمیں اپنے ایک محترم استاد کی لکھی ہوئی سو لفظی نظم یاد آتی ہے کہ
ہم نے تمہیں پناہ دی
ہم نے تمہیں مہذب بنایا
ہم نے تمہیں روسی ملحد کتوں سے بچایا
ہم نے تمہیں قومیت کا شعور دیا
ہم نہ ہوتے تو تم کہیں کے نہ رہتے
تمہاری کوئی شناخت کوئی ملک نہ ہوتا
تم دنیا کے نقشے پہ بھٹکنے والے بدو ہوتے
تم بادشاہوں یا اشتراکیوں کی غلام گردشوں میں چلتے چلتے مر جاتے
یا دشمن اکثریت تمہاری ماؤں، بہنوں کے دوپٹوں سے اپنے لشکروں کے علم بناتی
اور آج تم ہم پہ بھونکتے ہو،
گھٹیا، احسان فراموشو،
یہ ہم افغانیوں سے نہیں کہ رہے
یہ انگریزوں نے ہندوستانی مسلمانوں سے کہا تھا
(عمران فیروز)
شنید ہے، کہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے بھاری مقدار میں لیتھیم دریافت ہوا ہے اور اس نے پاکستان سے نکالے جانے والے مہاجر افغان خاندانوں کے لیے ایک موہوم سی امید ضرور پیدا کر دی ہے کہ اگر وہ عافیت سے کابل پہنچ گئے تو شاید اپنے گزر اوقات کے لیے سرمایے کا بندوبست کر لیں۔ ویسے کتنی ہی تانبے اور لیتھیم جیسی قیمتی معدنیات یہاں بلوچستان کےسنگلاخ پہاڑوں سے بھی نکلیں مگر گھر اُسی کا روشن ہوا جس جہاں پہلے سے چراغ جل رہے تھے۔ پیٹ اسی کا بڑھا جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا نمائندہ بن کر یہاں ہماری قسمت بدلنے آیا تھا۔
آپ کے ہاں رہنے والے نوجوان کے پاس تو بس دو ہی راستے ہیں یا تو اپنے حق کے لیے اُٹھ کھڑا ہو اور اگر یہ مشکل کام ہے تو پھر مہاجر ین وطن میں شامل ہونے کے لیے پاسپورٹ کی قطار میں لگ جائے۔