بھارتی قوم ایک ہفتے میں کتنے گھنٹے کام کرنا چاہتی ہے؟

جمعہ 3 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایک شخص کو ہفتے میں کتنے گھنٹے کام کرنا چاہیے؟ یہ سوال ہندوستان میں پچھلے کچھ دنوں سے موضوع بحث ہے کیونکہ سافٹ ویئر کمپنی انفوسس کے بانی ارب پتی این آر نارائنا مورتی نے اپنے ایک انٹرویو میں نوجوانوں کو ملکی ترقی میں مدد کے لیے ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنے کے لیے تیار رہنے کا مشورہ جو دیدیا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے سسر نارائنا مورتی نے ایک پوڈکاسٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان کی کام کی پیداواری صلاحیت دنیا میں سب سے کم ہے، جب تک ہم اپنی کام کی پیداواری صلاحیت کو بہتر نہیں بناتے، ہم ان ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے جنہوں نے زبردست ترقی کی ہے۔

’لہذا، میری درخواست ہے کہ ہمارے نوجوان ضرور کہیں کہ یہ میرا ملک ہے اور میں ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنا چاہتا ہوں۔’

ان کے اس تبصرے کے وائرل ہونے کے بعد، نارائنا مورتی کو حمایت اور تنقید دونوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ سوشل میڈیا پر لوگوں اور اخبارات کے آراء پر مبنی صفحات نے  کام کے ’زہریلے کلچر‘ اور ملازمین اپنےمالکوں سے کیا توقع کر سکتے ہیں جیسے معاملات پر بحث کا آغاز کردیا۔

کچھ تنقید ان لوگوں کی جانب سے ہوئی جنہوں نے نارائنا مورتی کی قائم کردہ انفوسس سمیت دیگر ہندوستانی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں انجینئرز کے لیے ابتدائی تنخواہوں، جو زیادہ تر قلیل ہوتی ہے، کی نشاندہی کی، جبکہ دوسروں نے ان جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل پر توجہ مرکوز کی جو بغیر وقفے کے کام کرنے سے پیدا ہو سکتے ہیں۔

’ہمارے نوجوان ضرور کہیں کہ یہ میرا ملک ہے اور میں ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنا چاہتا ہوں‘ ۔ سافٹ ویئر کمپنی انفوسس کے بانی ارب پتی این آر نارائنا مورتی (فائل فوٹو)

ڈاکٹر دیپک کرشنامورتی، بنگلور میں مقیم ماہر امراض قلب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ سماجی رابطوں کا وقت نہیں ملتا۔ ’۔۔۔گھر والوں سے بات کرنے کا وقت نہیں، ورزش کرنے کا وقت نہیں، تفریح کا وقت نہیں۔۔۔ کمپنیاں لوگوں سے توقع کرتی ہیں کہ وہ کام کے اوقات کے بعد بھی ای میل اور کال کا جواب دیں گے، پھر حیراں ہوتے ہیں کہ نوجوانوں کو ہارٹ اٹیک کیوں ہو رہا ہے۔‘

اور کچھ نے نشاندہی کی کہ دفتر اور اپنے گھر دونوں جگہ ملا کر بیشتر خواتین ہفتے میں 70 گھنٹے سے زیادہ کام کرتی ہیں، یہ بحث ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دنیا بھر میں کووڈ 19 وبائی مرض نے لوگوں کو کام کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینے پر مجبور کر دیا ہے۔

بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ جب وہ گھر سے کام کرتے ہیں تو وہ زیادہ نتیجہ خیز ہوتے ہیں جبکہ دوسروں نے صحت مند کام اور زندگی کے توازن کی وکالت کی، دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تجویز نہ صرف ملازمین بلکہ سب کے لیے فائدہ مند ہے۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے گزشتہ سال جاری کردہ ایک رپورٹ میں 45 امریکی کمپنیوں کے مطالعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کمپنیاں جو کام اور زندگی میں توازن کی پالیسیوں پر عملدرآمد کرتی ہیں، وہ موجودہ ملازمین کو اپنے ساتھ لمبے عرصے تک رکھنے، بھرتی میں بہتری، غیر حاضری کی کم شرح اور اعلی کارکردگی سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔

ہندوستانی پہلے ہی زیادہ گھنٹے کام کرتے ہیں، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستانی ہر سال وبائی مرض سے پہلے اوسطاً 2 ہزار گھنٹوں سے زیادہ کام کرتے تھے، جو امریکا، برازیل اور جرمنی کےمقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

ہندوستانی فلم پروڈیوسر رونی اسکرو والا نے بھی ایکس پر اپنا تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ پیداواری صلاحیت کو بڑھانا صرف زیادہ وقت تک کام کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ ’یہ آپ کے کام میں بہتری لانے کے بارے میں ہے، جیسے اعلی مہارت، کام کا مثبت ماحول اور کیے گئے کام کی مناسب تنخواہ۔ کیے گئے کام کا معیار زیادہ ہوگا مزید گھنٹوں میں تولنے سے۔‘

یہ موضوع بھارت میں ایک حساس نوعیت کا معاملہ ہے، ملک میں محنت کے مضبوط قوانین ہیں لیکن کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان پر سختی سے عمل درآمد کے لیے حکام کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سال کے شروع میں کارکنوں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے احتجاج نے تامل ناڈو کی ریاستی حکومت کو ایک بل واپس لینے پر مجبور کیا جس کے تحت فیکٹریوں میں کام کرنے کا وقت 8 سے بڑھا کر 12 گھنٹے ہو سکتا تھا۔

ارب پتی نارائنا مورتی کو اس سے قبل 2020 میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ ہندوستانی 2 سے 3 سال تک ہفتے میں کم از کم 64 گھنٹے کام کریں تاکہ کورونا وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی سست روی کی تلافی کی جاسکے۔

پچھلے سال، ایک اور ہندوستانی چیف ایگزیکٹیو آفیسرکو یہ تجویز کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ نوجوان اپنے کیریئر کے آغاز میں دن میں 18 گھنٹے کام کریں لیکن ہندوستان میں کچھ کاروباری رہنما اس مشورے سے اتفاق کرتے ہیں۔

ایک پر آئی ٹی کمپنی ٹیک مہندرا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سی پی گرنانی بھی تبصرے میں پیچھے نہیں رہے، ان کا کہنا تھا کہ نارائنا مورتی نے تبصرے کو زیادہ جامع انداز میں لینے کا ارادہ کیا ہوگا۔ جب وہ کام کی بات کرتے ہیں، تو یہ کمپنی تک محدود نہیں ہے، یہ آپ کے لیے اور آپ کے ملک تک پھیلا ہوا ہے۔

’انہوں نے یہ نہیں کہا ہے کہ کمپنی کے لیے 70 گھنٹے کام کرو، کمپنی کے لیے 40 گھنٹے کام کرو لیکن اپنے لیے 30 گھنٹے کام کرو، 10 ہزار گھنٹے کی سرمایہ کاری کریں جو کسی کو ایک مضمون میں ماسٹر بنادیتا ہے، راتوں کو جاگ کر پڑھیں اور اپنے شعبے میں ماہر بنیں۔‘

جے ایس ڈبلیو گروپ آف کمپنیز کے چیئرمین سجن جندال نے کہا کہ 5 دن کے ہفتہ کا کلچر وہ نہیں ہے جس کی ہمارے سائز کی تیزی سے ترقی کرنے والی قوم کو ضرورت ہے۔

ایسے وقت کہ جب ہندوستان میں طویل دورانیے پر مبنی کام کے اوقات پر بحث میں مصروف ہے، کچھ ترقی یافتہ ممالک ہفتے میں 4 دن کام کے تجربے پر اتر آئے ہیں، گزشتہ سال ہی بیلجیئم نے کارکنوں کو تنخواہ میں کمی کے بغیر ہفتے میں چار دن کام کرنے کا حق دینے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی۔ بیلجیئن وزیر اعظم نے کہا کہ اس ضمن میں ان کی نیت یہ تھی کہ زیادہ متحرک اور پیداواری معیشت کی تشکیل کو ممکن بنایا جائے۔

پچھلے سال، برطانیہ میں کئی کمپنیوں نے 6 ماہ کی آزمائشی اسکیم میں حصہ لیا، جس کا اہتمام ’4 ڈے ویک گلوبل‘ کے ذریعے کیا گیا تھا جو کہ ایک چھوٹے ہفتے کے لیے مہم چلاتی ہے، آزمائش کے اختتام پر، 61 میں سے 56 کمپنیوں نے کہا کہ وہ 4 دن کے ہفتے پر کم از کم ابھی عملدرآمد کے لیے یکسو ہیں، ان 56 میں سے 18 کمپنیوں نے اسے مستقل طور پر اپنانے کا بھی کہا۔

برطانیہ میں اس اسکیم کے اثرات کا جائزہ لینے والی ایک رپورٹ نے اس کے ’وسیع فوائد‘ کا تذکرہ کیا ہے جو خاص طور پر ملازمین کی فلاح و بہبود سے متعلق ہیں، رپورٹ کے مصنفین نے استدلال کیا کہ یہ رویوں میں تبدیلی کا مظہر بن سکتی ہے، تاکہ ہفتے کے وسط کا وقفہ یا 3 دن کے ویک اینڈ کو جلد ہی معمول کے مطابق دیکھا جائے، اس نوعیت کا تجربہ اب پرتگال میں کیا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp