خیبرپختونخواہ کے ضلع لوئر کوہستان کے علاقہ پٹن میں مقامی علماء نے فیصلہ کیا ہے این جی اوز کی خواتیں کو علاقے میں کام کرنے نہیں دیں گے، اگر شادی شدہ خواتین یہاں آئیں تو انہیں علاقہ بدر کیا جائے اور اگر غیر شادی شدہ خواتین این جی اوز کے عزائم کی تکمیل کے لیے آئیں تو ان کو پکڑ کر زبردستی نکاح کرایا جائے۔
یہ فیصلہ اور اعلان سوشل میڈیا پر کوہستان کے ایک مقامی عالم مولانا کریم داد نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعے کیا۔ مولانا کریم داد کوہستان سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالحلیم کے بیٹے ہیں۔ اس سے قبل این جی اوز کے خلاف اسی طرز کا ایک فتویٰ مولانا عبدالحلیم نے خود بھی دیا تھا اور این جی اوز کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف عمل رہے ہیں۔
کوہستان سے تعلق رکھنے والے صحافی شمس الرحمان شمس کے مطابق اس وقت کوہستان میں یونیسیف، ہلال احمر، ندیٰ پاکستان سمیت متعدد ملکی و بین الاقوامی این جی اوز کام کررہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک گروہ شروع دن سے این جی اوز کے کام کے خلاف سرگرم عمل رہا ہے اور وقتاً فوقتاً اس طرح کے فیصلے کرتے رہتے ہیں تاہم ان کی اجتماعی تائید نہیں مل پا رہی ہے۔ بہت سارے علماء ابھی بھی اس فیصلے کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ زبردستی نکاح ہو ہی نہیں سکتا ہے تو ایسے فیصلے کی تائید کیوں اور کیسے کریں۔
مزید پڑھیں
این جی اوز بالخصوص اس میں کام کرنے والی خواتین کے متعلق فیصلے پر سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث شروع ہوگئی ہے۔ فیصلے کے تائید میں بھی لوگ پوسٹس کررہے ہیں جبکہ اس کے خلاف بھی لوگ سرگرم عمل نظر آرہے ہیں۔ صابر ساحل نامی صارف، جس نے اپنا علاقہ رہائش پٹن ہی بتایا ہے، کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر چیز کا ایک ضابطہ موجود ہے۔ بغیر اجازت کے کوئی بھی این جی او کام نہیں کرسکتی ہے اور جن کو اجازت ملتی ہے وہ ان کے کام میں سابقہ ریکارڈ کی بنیاد پر ملتی ہے تاکہ علاقے میں فلاح و بہبود کا کام کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ کیا اس موضوع پر کوہستان کے چند علماء کے علاوہ ملک بھر میں کسی عالم نے کام نہیں کیا ہے؟ یا اس کی تائید نہ کرنے والوں پر آپ کیا کہیں گے؟ تمام اسلامی ممالک میں این جی اوز کام کررہے ہیں لیکن جہالت صرف ہمارے پاس ہے۔ ایسے میں کوہستان کے نوجوان ڈگریاں لیکر جائیں تو کہاں جائیں۔
بہت سارے صارفین نے اس فیصلے پر مزاحیہ مواد تیار کرتے ہوئے “چلو چلو کوہستان چلو” کی مہم شروع کی ہے اور اس فیصلے پر میمز بنارہے ہیں۔
اس حوالے سے وی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کوہستان پٹن کے نوجوان عالم مولانا عاطف نے بتایا کہ یہ فیصلہ ہمارا متفقہ فیصلہ نہیں ہے اس بابت مولانا کریم داد و دیگر نے عجلت اور جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی بجائے فریقین کو بٹھاکر بات چیت کرنا چاہیے تھا۔ مولانا عاطف نے بتایا کہ 10 سال قبل این جی اوز کے ساتھ ہم نے معاہدہ کرکے یہاں کوہستان میں کام کرنے کی دعوت دی تھی جس میں اس بات کا ذکر موجود تھا کہ تمام این جی اوز مقامی روایات اور اسلامی تعلیمات کو ملحوظ نظر رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں کچھ تحفظات و اعتراضات اس سلسلے میں سامنے آئے تھے جبکہ مذکورہ غیر سرکاری تنظیمات کی خواتین گلیوں محلوں میں پھررہی تھی اور خواتین کو انجکشن لگا رہی تھی تو اہلیان کوہستان و علماء کا موقف تھا کہ گلی محلوں میں خواتین کو پھرانے کے بجائے وہ اپنے مراکز میں ہی رہیں ہم خواتین کو لیکر مرکز پہنچ جائیں گے۔ اس بابت حتمی کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ سوشل میڈیا پر بحث شروع کرائی گئی۔ اس بحث سے ایسا تاثر جنم لے رہا ہے جیسے ہم این جی اوز اور خواتین کے خلاف ہیں جو کہ حقائق کے برعکس ہے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ کوئی ایک این جی او ایسی نہیں ہے جس میں خواتین کام نہیں کررہی ہوں لیکن ان پر کوئی اعتراض اب تک نہیں ہوا۔ ایک چھوٹا سا مسئلہ تھا جس پر فریقین کو بٹھاکر تحفظات دور کیے جاسکتے تھے۔ مولانا عاطف نے مزید بتایا کہ کل کُل کوہستان علماء کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جہاں پر تفصیلی غور و خوض اور گفت و شنید ہوگی جس کے بعد متفقہ فیصلہ ہوگا۔