جہاں عقل وخرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی!

اتوار 5 نومبر 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ سوشل میڈیا نے ہمیں ایک سطحی سوچ کے حامل افراد کا گروہ بنا دیا ہے؟ سوشل میڈیا نے پوری دنیا میں ہاہاکار مچائی ہوئی ہے۔ ایک ہی موضوع پر ہزاروں کی تعداد میں تبصرے اور مختلف رائے سامنے آتی ہیں۔ اب ایسے میں انسان کس پر ایمان لائے اور کسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے۔ فولونگ کی بھیڑ چال زوروں پر ہے۔ جس کے جتنے زیادہ مرید وہی اعلیٰ پائے کا مرشد ٹھہرے۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ جس معاشرے میں چند سمجھدار اور باشعور دوستوں کا ملنا بڑے نصیب کی بات مانی جائے وہاں ہزاروں کی تعداد میں فیس بک کی دوستیاں کچھ عجب بات نہیں لگتی؟

معمولی سے واقعات کو رائی کا پہاڑ بنانا بھی سوشل میڈیا کا ہی خاصا ہے بالکل ایسے ہی جیسے لمز کے طلبا اور نگراں وزیراعظم کی ملاقات کے پیچھے طرح طرح کے طرم خان ہاتھ دھو کر پڑ گئے۔

ایک گروہ وزیراعظم کی شان میں قصیدے پڑھ رہاہے تو دوسرا لمز کے بچوں بچیوں کی تنگ مزاجی اور تیز طرار سوالوں پر سر دھن رہا ہے۔ کوئی کاکڑ صاحب کے جوابات کو سراہ رہا ہے تو کوئی طلبا کی ذہنی صلاحیتوں اور شعور کو سلام پیش کر رہا ہے۔

شاید آپ نے بھی وہ پورا سوال جواب کا سیشن دیکھا ہو۔ شروع سے آخر تک ایک عام سا سیشن تھا۔ نہ طلبا کسی اہم مدعے کو موثر انداز بیاں سے سوال میں پرو سکے نہ ہی ہمارے نگراں وزیراعظم مطمئن کر پائے۔

یہاں ذہن میں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ نگراں وزیراعظم سے لے کر الیکشن میں جیت کر آنے والے وزیراعظم سے سوال کرنا اور وہ بھی تلخ اور چبھتے ہوئے سوال کرنا تو ہماری اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے ۔ایک حبس زدہ ماحول میں سوال اٹھانا ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا ہے۔

بالکل بجا!

لیکن کیا کبھی ہم نے سمجھنے کی کوشش کی کہ بے شک ہم انہیں سلیکٹڈ کا ٹھپہ لگائیں، الیکٹڈ کا خطاب دیں یا وہ خود کو نومینیٹڈ کہہ کر طفل تسلی دیں۔ یہ کوئی صیغہ راز نہیں کہ یہ صرف مہرے ہیں جن کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں۔ کیا ان کو سلیکٹ کرنے والوں سے ہم اس طرح تند و تیز سوال کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟۔

اس ملک میں کیا سوال اٹھانا ہے، کس پر اٹھانا ہے اور کس حد تک اٹھانا ہے یہ اس ریاست کے کرتا دھرتاؤں نے ہمیں ان 76 سالوں میں بخوبی سمجھا دیا ہے اور اب ہماری نئی نسل کی تربیت اسی پیرائے میں کی جاچکی ہے کہ کس کو لتاڑنا ہے اور کسے سربسجود ہونا ہے۔

رہی سہی کسر سوشل میڈیا کے چغادریوں نے نئی اور پرانی نسل کی سوچ کو محدود کر کے پوری کر ڈالی ہے۔

اچھا ذرا اس طرف بھی نظر کرم ہو کہ ہم کس معاشرے میں تمیز، تہذیب، شعور اور انکساری کی توقع کر رہے ہیں؟ وہی معاشرہ جو پچھلی 2 دہائیوں سے ایک ایسے جتھے میں تبدیل کردیا گیا ہے جس کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں رہی ہے۔ ہمارے ریاستی اداروں نے شعوری طور پر سیاست میں ایسے افراد کو شامل کیا جنہیں سیاست کی ابجد سے بھی واقفیت نہ تھی اسی لیے آج کی اکثریتی نوجوان نسل سیاست کو ایک گالی سمجھتی ہے۔ جبکہ جمہوریت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور بنا سیاست کے کوئی بھی ریاست اور سماج ارتقائی منازل طے کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

لیکن کیا کیجیے کہ ہماری نئی نسل کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک پاکستانی تاریخ کا باب سنہ 2010 سے شروع ہوتا ہے۔

اب زرا کچھ بات لمز جیسے اداروں کی بھی ہوجائے۔ پاکستان میں لمز ہو یا کیمبرج سسٹم کا کوئی بھی ادارہ یہاں وہی بچے بچیاں تعلیم حاصل کرنے کی جرات کر سکتے ہیں جو مالی طور پر آسودہ ہوں۔ البتہ چند ایسے طلبا ہوتے ہیں جو غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنی اعلیٰ تعلیمی کارکردگی پر وظیفہ حاصل کرکے ایسے اداروں میں داخلہ حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ بات صرف لمز کی ہی کیوں؟ ہمارے پچھلے وزیراعظم آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ تھے تو جارج ڈبلیو بش یلز کے فارغ التحصیل تھے۔ یہ ضروری نہیں کہ اعلیٰ ترین جامعات کے فارغ التحصیل افراد بہتر سماجی و سیاسی سوجھ بوجھ کے بھی مالک ہوں۔ یا جو سرکاری نیم سرکاری اداروں سے پڑھ کر نکلے ہوں وہ زیادہ شعور رکھتے ہوں۔ میری رائے میں جرنلائز کرنا درست رویہ نہیں۔ اداروں سے زیادہ اب گھر کا ماحول اور تربیت بچوں میں سیاسی و سماجی شعور دینے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ اب وہ دور گئے جب درسگاہیں انسانی رویوں کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز رکھتی تھیں۔ اب دنیا بھر میں اکثریت ایسے اداروں کی ہے جہاں وہی افراد قدم رکھنے کی جسارت کرسکتے ہیں جن کی جیبیں بھری ہوں، اس سے قطع نظر کہ وہ ذہنی طور پر کتنے ہی مفلوج کیوں نہ ہوں۔ اگر طلبا واقعی سوالات اٹھانے پر آزاد ہیں تو دنیا کے ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ممالک کی اعلیٰ پایہ کی جامعات غزہ کی بربادی پر خاموش کیسے ہیں؟ یعنی بات پھر وہیں پہنچی کہ سوال کیا اٹھانا ہے، کس پر اٹھانا ہے اور کس حد تک اٹھانا ہے۔ سارا کھیل ہی اجارہ داری کا ہے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ طاقتور اور بالادست کون ہے یہ اہمیت رکھتا ہے۔

پھر ہمارے جیسے معاشرے میں یہ بحث ہی بے معنی محسوس ہوتی ہے کہ وزیراعظم 50 منٹ دیر سے کیوں پہنچے، یا طالب علم نے یہ سوال کر کے بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔ کیونکہ دونوں فریق ہی سطحی سوال و جواب کے پھیرے میں رہے۔ جب ہمارا پورا سماجی ڈھانچہ ہی غلط سمت کی جانب گامزن ہے تو لمز کے طلبا اور ہمارے نگران وزیراعظم سے اعلیٰ صلاحیتوں کے مظاہرے کی توقع کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟

بد تہذیبی اب ہمارے سماج میں ایک معمول کا چلن بن کر ہر طبقے میں سرایت کر چکی ہے۔

لیکن قصور ان میں سے کسی کا بھی نہیں کیونکہ ہمیں ڈھالا ہی اسی انداز میں گیا ہے کہ ہماری سوچ کا دھارا سطحی رہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp