آن لائن رشتہ ایپس پر ہراسانی کے خطرات کیوں بڑھتے جا رہے ہیں؟

اتوار 5 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں میچ میکینگ ایپس کا بڑھتا رجحان جہاں ایک مثبت قدم ہے وہیں یہ آن لائن ایپس ہراسانی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ جنسی تعلقات کو بھی فروغ دے رہی ہیں۔

انٹرنیٹ کے ذریعے رشتوں کی تلاش کے لیے پاکستان کے شہری علاقوں میں شادی بیاہ کی ویب سائٹس کے استعمال میں غیر معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور ان ایپس کے 100 فیصد مصدقہ پروفائلز محض دعوٰی ہی ہیں۔ کیونکہ ان ایپس پر ایک بڑی تعداد پہلے سے شادی شدہ مرد و خواتین کی بھی ہے۔  جن کا مقصد صرف تفریح ہے۔

واضح رہے کہ ان آن لائن رشتہ ایپس کے ذریعے بہت سے لوگ ایک کامیاب شادی شدہ زندگی بھی گزار رہے ہیں جن کی ایک بڑی تعداد اپنی کہانیاں سوشل میڈیا پر سناتی نظر آتی ہے، لیکن اکثر کہا جاتا ہے کہ ’پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں‘،یہ فقرہ یہاں درست بیٹھتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آن لائن رشتہ ایپس پر موجود تمام سنجیدہ افراد نے معاشرے کے روایتی رشتہ کلچر سے تنگ آکر ان آن لائن رشتہ ایپس کا سہارا لیاہے۔

برصغیر میں رشتہ کلچر دماغی توازن ہلا کر رکھ دیتا ہے

 کیونکہ برصغیر میں رشتہ کلچر لڑکی اور لڑکے کے دماغی توازن کو ضرور ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ لڑکا ہے تو اس کے قد کاٹھ، سرکاری نوکری اور اس کی آمدنی کے ساتھ جائیداد اور نہ جانے کتنا کچھ دیکھا جاتا ہے۔

جہاں رہی لڑکی کی بات تو اس کی خوبصورتی کا معیار اس کا گورا  رنگ سمجھا جاتا ہے لیکن اب تو ہر کسی کو بہو بھی کمانے والی چاہیے، جو اپنی نوکری کے ساتھ گھر بھی چلا سکے، ہمارے ہاں بدقسمتی سے رشتہ دیکھنے والوں کی آنکھ دراصل ایک ربوٹک اور مصنوعی ذہانت سے تخلیق کیے شخص کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہے اور ایسی پرفیکشن تلاش کی جاتی ہے جو کہ شاید بہت کم یا پھر اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نوجوان اس روایتی رشتہ کلچر سے سخت مایوس ہیں اور آن لائن رشتہ ایپس کے رجحان میں غیر معمولی اضافے کی ایک بڑی وجہ بھی نوجوان طبقہ کی یہی مایوسی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آن لائن ایپس ان چند سنجیدہ افراد کے لیے کتنی محفوظ ہیں جو واقعی پاکستان کے رشتہ کلچر سے تنگ آکر خود رشتہ تلاش کر رہے ہیں؟

’موز میچ‘ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر شہزاد یونس نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اس آن لائن ایپ کو متعارف کروانے کا مقصد نئی مسلمان نسل جو شریک حیات کی تلاش کے ثقافتی اور روایتی طریقوں سے دور ہو کر مغرب کی روایات کو اپنا رہے ہیں، ان کو سیدھے راستے پر ڈالنا ہے۔

موز میچ کے ذریعے 5 لاکھ شادیاں ہو چکی ہیں

ان کا کہنا تھا کہ ’موز میچ‘ نے پوری دنیا میں مسلمان جوڑوں کے ملنے اور شادی کرنے کے انداز میں انقلاب برپا کیا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں اس ایپ کو استعمال کرنے والے ممبران کی تعداد تقریباً 9 ملین ہے اور ہم انہیں مناسب شریک حیات تلاش کرنے کے لیے ایک حلال اور محفوظ پلیٹ فارم دے رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ایپ پر اب تک 5 لاکھ کے لگ بھگ شادیاں ہو چکی ہیں۔ اور ہم اپنے تمام صارفین خاص طور خواتین کی سیکیورٹی کو یقنینی بناتے ہیں، ’موز میچ‘ ایپ کی کچھ حفاظتی خصوصیات ایسی ہیں جن پر ہمیں فخر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام صارفین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پروفائل کو ویری فائی کرنے کے لیے اپنے شناختی کارڈ سے اندراج کریں اور انہیں اس سب کے لیے کسی قسم کی اضافی رقم ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ تاکہ باقی سب کو اس بات کا یقین ہو کہ آپ قابل اعتماد ہیں اور ہماری تمام کمیونٹی ٹیم اپنے اراکین کی مدد کے لیے 24 گھنٹے موجود رہتی ہے۔

اسلام  آباد سے تعلق رکھنے والے  32سالہ محمد سہیل جو ایک مارکیٹنگ کمپنی کے منیجر ہیں، نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ 1 برس سے ’موز میچ‘ استعمال کر رہے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موز میچ پر اپنی پروفائل بنانے کے لیے آپ کے شناختی کارڈ کا اندراج ضروری ہے اور آپ فیک تصویر کا استعمال بھی نہیں کر سکتے، البتہ اپنے متعلق جعلی معلومات ضرور ڈال سکتے ہیں، جس کی کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔ لیکن یہ سچ ہے کہ یہ تمام آن لائن رشتہ ایپس صرف اور صرف ڈیٹینگ ایپس ہیں۔

آن لائن رشتہ ایپس پر لڑکے اور لڑکیاں زیادہ تر وقت گزاری کے لیے پروفائل بناتے ہیں، محمد سہیل

’کوئی لڑکی ایپس پر یہ نہیں جانتی کہ میں کس خاندان سے ہوں اور میرا اسٹیٹس کیا ہے، کیونکہ وہاں ایسا کوئی سیکیورٹی چیک نہیں ہے، میں نے صرف تفریح کے لیے اس ایپ پر رجسٹر کیا، لیکن پھر بہت سی لڑکیوں کو ڈیٹ کیا اور وہ لڑکیاں بھی شادی کے لیے نہیں بلکہ وقت گزاری کے لیے یہ ایپ استعمال کر رہی ہیں۔

 ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس چیز کا احساس بہت دیر بعد ہوا کہ میں نے جو کچھ بھی کیا وہ بلکل غلط تھا اور اب میں ہر کسی سے یہی کہتا ہوں کہ وہ ان ایپس پر غلطی سے بھی اعتبار نہ کریں‘۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے آن لائن رشتہ آرگنائزیشن ایپ کی منیجنگ ڈائریکٹر مسز علی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آن لائن رشتہ ایپس دراصل ڈیٹنگ ایپس کی طرح ہی ہیں اور جہاں تک رشتہ کی بات ہے تو وہ آپ کے اختیار میں نہیں ہے کہ دوسری جانب آپ کو کیسا شخص ملے گا۔

آن لائن رشتہ ایپس پر سیکیورٹی تحفظات بڑھ جاتے ہیں

یہ سو فیصد ہماری اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی نہیں ہیں، لیکن شادی آرگنائزیشن آن لائن اور روایتی دونوں طریقوں سے رشتوں کو دیکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آن لائن ایپس سہولت تو فراہم کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ سیکیورٹی کے حوالے سے تحفظات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ جبکہ روایتی رشتہ ایپ میں اس طرح کے چیلنجز کا سامنا کم ہی کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے اپنی آرگنائزیشن سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا رشتے طے کرنے کا عمل کافی لمبا ہوتا ہے۔ اور رشتہ کے خواہشمند افراد یا خاندان والوں کو ان کے دفتر میں بھی آنا پڑتا ہے اور دفتر  آنے والے تمام افراد کی دستاویزات لینے کے بعد ہی بات آگے بڑھائی جاتی ہے۔

آن لائن رشتہ ایپس پر بلیک میلنگ اور ہراسانی کا سلسلہ

انعم (فرضی نام) 28 برس کی ہیں، جنہیں آن لائن رشتہ ایپس کی وجہ سے بلیک میلنگ اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ 2 سالوں سے ان کے گھر والے رشتے کی تلاش میں تھے اور تقریباً ہر ہفتے انہیں کوئی فیملی دیکھنے آیا کرتی تھی اور ہر کسی کا سامنا کرنے پر ان کی ذہنی حالت بہت متاثر ہو رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جتنے بھی رشتے آئے ان کو کبھی میرے رنگ روپ سے تو کبھی قد کاٹھ سے مسئلہ رہتا اور ہر آنے والا شخص میری ذات میں ایک نیا نقص بتا کر چلا جاتا، جس سے میری دماغی حالت بہت متاثر ہو رہی تھی، میں نے سوچ لیا تھا کہ اب شادی نہیں کروں گی لیکن والدین کی پریشانی کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ میں بھی آن لائن رشتہ ایپ پر اپنا پروفائل بنا لیتی ہوں، جس کے لیے میں نے چند ہزار روپے بھی دیے‘۔

انعم کہتی ہیں کہ جب وہ پہلی بار رشتہ ایپ کے ذریعے لڑکے سے ملنے گئیں تو بظاہر انہیں وہ لڑکا اچھا لگا اور پھر ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں پہلے ایک دوسرے کو جان لینا چاہیے۔

 اور یوں دو بار ملاقات ہوئی، لیکن جب تیسری بار ملنے گئی تو اس سے باتیں کرتے ہوئے مجھے یک دم سے ایک ہاتھ اپنی ٹانگ پر محسوس ہوا، وہ وقت ایسا تھا جس نے میرے دماغ کو چند سیکنڈ کے لیے سن کر دیا تھا۔

رشتہ ایپس پر ملنے والے لڑکے سے پیسے دے کر جان چھڑائی، انعم

لیکن میں نے گھبراتے ہوئے ہاتھ جھٹک کر پیچھے کر دیا، لیکن میری غلطی یہ تھی کہ میں اس کے ساتھ چند تصاویر بھی لے چکی تھی اور جب میں گھر آئی تو اس نے مجھ سے جنسی تعلقات رکھنے کی خواہش ظاہر کی جس پر میں نے اس سے خوب لڑائی کی اور کہا کہ نکاح کے بغیر ایسا ممکن نہیں ہے ۔

’چونکہ وہ جانتا تھا کہ میں ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں جہاں کسی لڑکے کے ساتھ تصاویر دیکھنا قیامت سے کم نہ ہو گا اور اس نے مجھے اسی بنیاد پر بلیک میل کرنا شروع کر دیا‘۔

انعم کا کہنا تھا کہ ’وہ ایک نہایت ہی گرا ہوا شخص تھا۔ جب اسے اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ میں اس کے ہاتھ نہیں آؤں گی تو اس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اسے 50 ہزار دے دوں اور وہ میری تصاویر کا استعمال کبھی نہیں کرے گا اور پھر میں نے اس سے اپنی جان بھی پیسے دے کر ہی چھڑوائی۔

رشتہ ایپس کے لیے اسکریننگ سسٹم بنانا نہایت ضروری ہے، نگہت داد

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (DRF) کی چیئرپرسن نگہت داد نے اس بارےمیں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان ایپس پر پروفائل بنانے کے لیے اسکریننگ سسٹم بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

رشتہ ایپس سے خواتین کو ہراساں کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا

انہوں نے مزید کہا کہ جہاں ان ایپس کے ذریعے سہولیات میں اضافہ ہوا ہے وہیں خواتین کو ہراساں کرنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس بات کا اندازہ ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن پر موصول ہونے والی کالز سے ہوتا ہے۔

انہوں نے ان ایپس کی سیکیورٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پروفائل کی تصدیق کے بغیر اس کو رجسٹر نہیں کیا جانا چاہیے، ایک سے زیادہ اکاؤنٹ پر پابندی ہونی چاہیے، ایسا سیکیورٹی چیک اَپ ہونا چاہیے، جس کے بعد کوئی بھی شخص جعلی تصویر نہ لگا سکے۔ تمام آن لائن ایپس کو اپنی سخت پالیسیاں بنانی چاہییں تاکہ اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp