سالانہ لوک میلہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جاری، عوام کی گہری دلچسپی

اتوار 5 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لوک ورثہ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں جاری سالانہ لوک میلہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جاری ہے۔ میلےمیں آنے والے مہمانوں کے لیے کئی تفریحی پروگرامز پیش کیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہنرمندوں اور دستکاروں کے کام کی نمائش دیکھنے والوں کے لیے ایک خاص کشش رکھتی ہے۔

ملک بھر سے400 سے زیادہ دستکار اپنی تیار کردہ ملبوسات میلے میں پیش کر ر ہے ہیں، لوک فنون، دستکاری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ اپنی منفرد کاریگری سے دیکھنے والوں کو بے حد متاثر کر رہے ہیں۔

 نمائش میں موجود دستکاری کڑھائی (ملتانی، بہاولپوری، ہزارہ، سواتی، بلوچی اور سندھی کڑھائی سمیت) بلاک پرنٹنگ، جندری کاکام، کھسہ سازی، مٹی کے برتن، چُنری کا کام، گڑیا سازی، کھدر بنائی، ٹرک آرٹ، لکڑی کی نقش و نگاری، نمدا اور گبہ، دھاتی کام، شال کی بنائی، زری کام، موتی کاری، اجرک، سنگ تراشی وغیرہ شامل ہیں۔

لوک ورثا میں خواتین کا اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ

لوک ورثہ پاکستانی لوک ثقافت کو فروغ دینے والا ایک اہم ادارہ ہونے کے ناطےصنفی مساوات کی ضرورت سے بخوبی آگاہ ہے اسی لیے ماہر دستکار خواتین کے سٹال جا بجا لگے ہوئے ہوئے ہیں کیونکہ اس طرح سے مرد اور خواتین دونوں کواپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مساوی مواقع میسر ہوتے ہیں۔

 میلے میں بھی کئی خواتین کاریگروں کو اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کنیز فاطمہ ہیں۔ وہ بلوچی کڑھائی کی ماہر دستکارہ ہیں اور اپنے آباؤ اجداد کی اس صدیوں پرانی روایت کو آگے بڑھارہی ہیں اور اپنی زندگی کے 35 سے 40 سال اس پیشے کے لیے وقف کر دیئے ہیں۔ وہ اس فن کو آنے والی نسلوں کے لیے بھی مفید بنا رہی ہیں۔

کشیدہ کاری، بلاک پرنٹنگ، دستکاری کے فن کا مظاہرہ

مرد کاریگر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے میں عورتوں سے کم نہیں ہیں ان میں محمد ریاض، جندری کے کام کے ماہر دستکار ہیں ان کا تعلق سلانوالی، پنجاب سے ہے۔ ان کے والد بھی ایک ماہر کاریگر تھے۔

وہ ملک بھر میں ہونے والے کئی میلوں اور نمائشوں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے اور متعدد بار نقد انعامات اور اسناد سے نوازاگیا۔ان کو اسی سال صدرِپاکستان کی جانب سے تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

فیاض کہروڑ اور ملتان سے سید مطہر بخاری پکے کے قدرتی رنگوں کے ذریعے بلاک پرنٹنگ کے ماہر دستکارہیں۔ لکڑی کے بلاک بنانے کے قدیم فن کے مراکز وادی سندھ کے نچلے حصے میں ہیں جو جنوبی پنجاب اور پورے سندھ کو گھیرے ہوئے ہے۔

یہ 9,000 سال سے زیادہ پرانی دستکاری ہےجو بلوچستان میں مہر گڑھ تہذیب سے ملتی ہے، جس میں مٹی کے برتنوں کی تیاری کے ابتدائی شواہد سامنے آتے ہیں۔سندھ میں موہنجو دڑو کی وادی سندھ کی تہذیب اور پنجاب کی ہڑپہ تہذیب (5,000 قبل مسیح) کپاس اور اون سے بنے ہوئے کپڑے کی پیداوار کے نقوش کی نشاندہی کرتی ہے۔

پاکستانی دستکاری کی شکل، ڈیزائن اور رنگ میں اب بھی غالب تاریخی اثر بنیادی طور پر ہے۔دستکاری ایک قیمتی مادی ورثے کی نمائندگی کرتی ہے، جو ہماری تاریخی اور عصری ثقافت کا ٹھوس حصہ ہے۔ مغرب کے برعکس، پاکستان میں زیادہ تر روایتی دستکاری نہ تو کوئی پیشہ ہے اور نہ ہی مشغلہ، بلکہ متنوع ثقافتی نمونوں کا ایک لازمی جزو ہے-

صنعتی دور کا اثر اس دستکاری کے ورثے کو دیہی علاقوں میں بھی ختم کر رہا ہے لیکن شہری گھروں میں دستکاری بطور آرٹ کے استعمال کی طرف ایک حالیہ رجحان ہے۔

میلے میں کبڈی کا میچ بھی کھیلا گیا

ماہر دستکاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور سیاحوں اور برآمدی تجارت کے لیے ڈیزائنرز کے ذریعے تاریخی شکلوں اور ڈیزائنوں کو زندہ کیا جا رہا ہے۔ آج کے اس میلے میں پرانی ورایات کو برقرار رکھتے ہوئے فیصل آباد سے آئے ہوئے کبڈی کے کھلاڑیوں نے میچ کھیلا۔میچ پنجاب پویلین میں کھیلا گیا۔جسے عوام کی بڑی تعداد نے دیکھا۔

لوک ورثہ اوپن ایئر تھیٹر میں قوالی کا اہتمام بھی کیا گیا۔روایتی کھانوں کے سٹالز پہ لوگ روایتی من پسند کھانوں سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے اور ساتھ علاقائی موسیقی سے بھی محظوظ ہوتے رہے۔

میلے میں مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے کیمپ کا قیام

میلے میں فلسطین کے مظلوم بھائیوں کی امداد کے لیے بھی ایک کیمپ قائم ہے جس میں لوگوں نے بے حد دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔اس کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے پویلینز میں بھی لوگوں کا رش نظر آیا۔شائقین میلہ کا کہنا تھا کہ بہت عرصہ بعد ایک بھرپور میلے کا انعقاد کیا گیا ہے۔

جس کا تمام تر سہرا وفاقی وزیر قومی ورثہ و ثقافت سید جمال شاہ کو جاتا ہے۔وفاقی وزیر خود بھی مختلف اوقات میں میلے میں موجود رہے جس سے انتظامیہ بھی متحرک رہی اور ایک ڈسپلن نظر آیا۔

بیرسٹر جمال شاہ کا مختلف اسٹالز کا دورہ

نگران وزیر اطلاعات،ثقافت و سیاحت خیبر پختونخوا بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکاخیل نے لوک ورثہ اسلام آباد میں سالانہ لوک میلہ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور خطاب کیا۔ صوبائی وزیر نے وفاقی وزیر برائے قومی ورثہ و ثقافت جمال شاہ اور فلسطین کے سفیر احمد جواد ربعیی کے ہمراہ صوبوں کی جانب سے لگائے گئے پولینز کا دورہ کیا۔

 خیبرپختونخوا کلچر و ٹورز اتھارٹی کے حکام نے مہمانوں کا خیبرپختونخوا پولین کے مختلف حصوں کا دورہ کرایا،مہمانوں نے سٹالز، فوڈ کارنر، فوک میوزک، فن و ادب،، ثقافتی ملبوسات، کشیدہ کاری و زیورات میں گہری دلچسپی لی اور لوک موسیقی سے محظوظ ہوئے۔

وزیر اطلاعات، ثقافت و سیاحت خیبرپختونخوا بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکاخیل نے فلسطین کارنر کا بھی دورہ کیا، فیملیز سے ملے اور اظہارِ یکجہتی کیا اور خیبرپختونخوا حکومت اور عوام کا پیغام پہنچایا۔

افتتاحی تقریب سے خطاب میں بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکاخیل نے کہا کہ اس طرح کے ایونٹ ہمیں متحد کرنے کا کام کرتے ہیں اور ہماری ثقافت، اقدار اور ایک معاشرے کے طور پر ہماری سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے ایونٹ اس بات کا عکاس ہیں کہ ہمارا مقصد کیا ہے اور کس سمت میں ہم جا رہے ہیں اور کونسی وراثت ہم اگلی نسل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

میلے میں بچے ،بوڑھے اور نوجوان سب نظر آرہے ہیں اور سب کی دلچسپی کا بہت سامان موجود ہے۔ بچوں کو پتلی تماشا بہت پسند آیا۔پہلی مرتبہ لوک میلے میں پتلی تماشا کا بھی انعقاد کیا جارہا ہے۔ نوجوانوں بالخصوص طالب علموں کے لیے ٹکٹ میں بھی نمایاں کمی رکھی گئی ہے۔ میلہ 12 نومبر تک جاری رہے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp