سپریم کورٹ 10 نومبر کو پرویز مشرف غداری مقدمے کی اپیلوں پر سماعت کرے گی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 4 رکنی لارجر بینچ اپیلوں کی سماعت کرے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری مقدمہ ختم کیے جانے کے فیصلے کے خلاف اُس وقت پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں کوئی اپیل دائر نہیں کی تھی جبکہ سپریم کورٹ میں توفیق آصف ایڈووکیٹ، حافظ عبدالرحمان انصاری، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل نے اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔
سپریم کورٹ میں درخواست گزار توفیق آصف نے وی نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف سنگین غداری کیس میں ایک تو لاہور ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کو غیر قانونی قرار دیا۔ دوسرا پرویز مشرف نے سپریم کورٹ میں اپیل بھی دائر کر دی۔ ایک سوال کے جواب کہ وفاقی حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کیوں دائر نہیں کی گئی؟ توفیق آصف نے کہا کہ اس کا جواب تو وفاقی حکومت ہی دے سکتی ہے۔
بیک گراؤنڈ
13جنوری 2020 کو اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں ایک بینچ نے مرحوم سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو آرٹیکل 6 کے تحت سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ بینچ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے ساتھ لاہور ہائیکورٹ کے موجودہ چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور جسٹس محمد مسعود جہانگیر شامل تھے۔
اس سے قبل 17 دسمبر 2019 کو غداری مقدمے کے ٹرائل کے لیے قائم خصوصی عدالت نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، مسٹر جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں جنرل پرویز مشرف کو 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کو معطل کرنے کے الزامات کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔
اس سے قبل 18 نومبر 2013 کو سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس چلانے کے لیے مسلم لیگ نواز کی جانب سے دائر درخواست منظور کرتے ہوئے خصوصی عدالت بنائے جانے کا حکم جاری کیا تھا۔
لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ غیر قانونی غیر آئینی تھا؛ شوکت عزیز صدیقی
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ صریحاً غیر آئینی اور غیر قانونی تھا۔ اس معاملے کی سماعت لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار ہی میں نہیں تھی اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ فیصلہ کرنے والے ججوں کی بدنیتی شامل تھی تو یہ مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔
سنگین غداری مقدمے کے ٹرائل کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت میں 3 ہائیکورٹس کے جج صاحبان شامل تھے۔ اگر اس فیصلے کے خلاف اپیل سنی بھی جانی تھی تو اس کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ یا پھر سپریم کورٹ متعلقہ فورم تھے۔ لاہور ہائیکورٹ اس اپیل کو سننے کے لیے مجاز فورم نہیں تھا۔ اگر سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کے معاملے پر خصوصی عدالت کے فیصلے کو درست قرار دیتا ہے تو فیصلہ دینے والے ججوں کا مس کنڈکٹ ثابت ہو سکتا ہے۔
ججوں کے مس کنڈکٹ کے بارے میں سخت آبزرویشن آ سکتی؛ امان اللہ کنرانی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری ذاتی رائے میں لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم اور دائرہ اختیار سے تجاوز ہے۔ خصوصی عدالت اسلام آباد میں کام کر رہی تھی اور اس کے فیصلے کے خلاف اپیل لاہور ہائیکورٹ میں کس طرح سے دائر کی جا سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آئین و قانون سے بالاتر ہے، اس اعتبار سے میری ذاتی رائے میں جنرل مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جن ججوں نے یہ فیصلہ دیا، سپریم کورٹ ان کے خلاف سخت آبزرویشنز جنہیں عدالتی اصطلاح میں سٹرکچرز کہا جاتا ہے، پاس کر سکتی ہے کیونکہ دائرہ اختیار سے باہر کوئی مقدمہ سننا مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر عدالت ایسا فیصلہ بھی جاری کر سکتی ہے تاکہ آئندہ کوئی عدالت دائرہ اختیار سے باہر کوئی فیصلہ نہ کرے۔
یہ اپیلیں غیر موثر ہو چکی ہیں؛ شعیب شاہین ایڈووکیٹ
شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی وفات کے بعد یہ اپیلیں غیر موثر ہو چکی ہیں اور میرے خیال سے عدالت انہیں غیر موثر قرار دے کر خارج کر دے گی۔
سنگین غداری مقدمے میں فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر ہو سکتی تھیں تاہم کس عدالت کو یہ اپیلیں سننے کا اختیار حاصل ہے یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے جس پر سپریم کورٹ میں بحث ہو سکتی ہے۔