ریشماں کی کوئل جیسی کوک کرتی ہوئی سریلی آواز کو ہدایتکار سبھاش گھئی نے راج کپورکے گھر میں سنا تھا۔ وہ اس مدھر اور نغماتی آواز کے سحر میں کھو سے گئے۔ پھر انہیں معلوم ہوا کہ راج کپور پاکستانی گلوکارہ ریشماں کے اس گیت ’اکھیاں نوں رہن دے‘ کو اپنی فلم ’بوبی‘ میں پیش کرنے والے ہیں۔ پاکستانی گلوکاروں کی بھارت میں پرفارمنس پر غیر اعلانیہ بندش تھی اسی لیے راج کپور نے اس گانے کو لتا منگیشکر کی آواز میں دیسی انداز میں ریکارڈ کرایا۔ ’بوبی‘ کا یہ گیت دیگر گانوں کی طرح خاصا مقبول ہوا۔
سبھاش گھئی نے 70 کی دہائی میں ہی سوچ لیا تھا کہ جب بھی انہیں موقع ملا وہ ہر صورت میں گلوکارہ ریشماں کی آواز کو اپنی کسی فلم میں استعمال کریں گے۔ 1981 اور 82 کے آس پاس دلیپ کمار کے گھر میں آخر کارسبھاش گھئی کی ریشماں سے ملاقات ہوہی گئی۔ ریشماں کو بتایا گیا کہ سبھاش گھئی ان کی آواز کے بہت بڑے مداح ہیں اور اس بات کی آرزو رکھتے ہیں کہ گلوکارہ ریشماں ان کی فلم میں نغمہ سرائی کریں۔ یہ وہ دور تھا جب گلوکارہ ریشماں نے اپنی مخصوص گلوکاری کی بنا پر دنیا بھر میں پرستاروں کی تعداد میں اضافہ کرلیا تھا۔ سبھاش گھئی کی اس پیش کش پر انہوں نے ابتداء میں معذرت کرلی۔
ریشماں کا خیال تھا کہ وہ ٹی وی ریڈیو اور تقریبات میں تو گلوکاری کرسکتی ہیں لیکن فلم کے لیے اپنی آواز کا استعمال انہیں پسند نہیں اور یہ ان کی طبیعت کے برخلاف بھی تھا۔ اب ایسے میں سبھاش گھئی کی سفارش دلیپ کمار نے کی تو ریشماں تیار ہوہی گئیں۔ سبھاش گھئی ماڈل جیکی شروف اوراس وقت مس انڈیا کا اعزاز حاصل کرنے والی میناکشی ششادری کو لے کر فلم ’ہیرو‘ بنانے کی تیاری کررہے تھے۔ موسیقار جوڑی لکشمی کانت پیارے لال کو گیتوں کی دھن تیار کرنے کا ٹاسک ملا تھا جبکہ رومانی نغمے لکھنے میں اپنی مثال آپ آنند بخشی پھر سے لفظوں کی کاری گری دکھانے میں مصروف تھے۔
آنند بخشی اور لکشمی کانت پیارے لال نے پاکستانی گلوکارہ کے گزشتہ گیتوں کو بغور سنا اور انہی کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ کلاسک گیت تیار ہوا جو ’لمبی جدائی‘ کے نام سے زبان زد عام ہوا۔ جس دن اس گانے کو ریکارڈ کرنا تھا اس کے لیے خصوصی طور پر اہتمام کیا گیا۔ ریشماں نے سبھاش گھئی پر پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ وہ زیادہ شور شرابا اور ہجوم کو پسند نہیں کرتیں بس وہ اس بات کا خاص خیال رکھیں۔
بمبئی کے ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں لکشمی کانت پیارے لال کے ساتھ ریہرسل ہوئی۔ اس دوران ریشماں نے محسوس کیاکہ اسٹوڈیو میں سازندوں کی تعداد وہ نہیں جو ہونی چاہیے۔ ریشماں کو بتایا گیا کہ لکشمی کانت پیارے لال جو عام طورپر ڈیڑہ دو سو سازندوں کے ساتھ کوئی بھی گیت تیار کرتے ہیں۔ انہوں نے ریشماں کی خواہش کو مدنظر رکھ کر اپنے عملے کی تعداد انتہائی مختصریعنی صرف 9 ہی رکھی۔ ریشماں نے جب یہ محسوس کیا تو بڑے پرسکون انداز میں پہلے ریہرسل میں حصہ لیا۔ لکشمی کانت پیارے لال سے بعد میں کسی نے یہ دریافت کیا کہ عام طور پر تو ان کے سازندوں کی تعداد اس قدر ہوتی تھی تو پھر انہوں نے ’لمبی جدائی‘ کے لیے اس قدر کم کیوں رکھے تو پیارے لال جی کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد ریشماں کی آواز کو نمایاں کرنا تھا نا کہ سازندوں کی تعداد بڑھا کر ان کو ڈرانا۔
لکشمی کانت پیارے لال نے سبھاش گھئی پر پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ وہ اس گیت کے لیے پہلے انہیں سچوئشن بتائیں گے۔ پھر ہی گیت لکھا جائے گا اور جس کے بعد لکشمی کانت پیارے لال اسے کمپوز کریں گے۔ اور پھر کچھ ایسا ہی ہوا۔ چند دنوں کی ریہرسل کے بعد آخر کار ساڑھے چھ منٹ کا یہ گیت ایک دن ریکارڈ کرلیا گیا۔
ایک لکشمی کانت پیارے لال ہی کیا سبھاش گھئی نے بھی جب اس گانے کو پہلی بار سنا تو انہیں یقین ہوگیا کہ ’ہیرو‘ کے لیے یہ کلاسک گیت ہے۔ اب یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کہ ملکہ ریگستان اور بلبل صحرا کا اعزاز رکھنے والی ریشماں نے بھی دل کی گہرائیوں سے اس گانے کو گایا جو فلم کو سپر ہٹ بنانے میں کامیاب رہا۔ یہ وہ دور تھا جب کسی بھی نئی فلم کے گیتوں کے البم پہلے جاری کیے جاتے تھے۔ فلم ’ہیرو‘ کے مدھر اوررسیلے گانوں نے چاروں طرف دھوم مچادی بالخصوص پاکستانی گلوکارہ ریشماں کے گائے ہوئے ’لمبی جدائی‘ تو سپر ہٹ ثابت ہوا۔
ہدایتکار سبھاش گھئی کی ’ہیرو‘ جب 16 دسمبر 1983 کو سنیما گھروں کی زینت بنی تو اس نے جیکی شیروف، میناکشی ششادری اور خود سبھاش گھئی کے کیرئیر کو مقبولیت اور شہرت کے اوج کمال پرپہنچادیا۔پاکستانی گلوکارہ کا یہ شہرہ آفاق گیت فلم میں ایک بنجارن پر عکس بند کیا گیا جبکہ اس کے بولوں پر میناکشی کے جذبات اور احساسات کمال خوبی سے سبھاش گھئی نے عکس بند کیے۔
اس گانے کی وجہ سے ریشماں پر بھارتی فلموں کی برسات ہونے لگی لیکن انہوں نے کیرئیر کے اس موڑ پر جلدبازی کامظاہرہ نہیں کیا اور ہر پیش کش پر معذرت کرتی چلی گئیں۔ ریشماں کی مقبولیت اور شہرت کا یہ عالم تھا کہ اُس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بطور خاص ان سے ملاقات کرتے ہوئے ان کی گلوکاری کی تعریف کی۔
ریشماں نے اس گیت کے بعد 2004 میں ایک اور بھارتی فلم ’وہ تیرا نام تھا‘ میں پھر ایک گیت ’عشقاں دی‘ کو گنگنایا جو کسی حد تک ’لمبی جدائی‘ سے مشابہت رکھتا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ گیت عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ نومبر 2013 میں پرستاروں سے منہ موڑنے والی ریشماں کے بارے میں بھارتی موسیقار پیارے لال کا کہنا تھا انہیں جب سبھاش گھئی نے بتایا تھا کہ وہ ریشماں کی آواز میں گانا ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ ‘لوک گلوکار شیر کی طرح ہوتے ہیں جنہیں جب موقع ملتا ہے وہ اپنی گلوکاری سے تادیردھاک بٹھادیتے ہیں’۔