پاکستان میں ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے کے لیے خطرناک حرکات کرتے ہوئے 15 نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ سینکڑوں مختلف واقعات میں زخمی ہوچکے ہیں۔ ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے سب سے زیادہ اموات اچانک گولی چلنے سے ہوتی ہیں جبکہ بعض نوجوان ویڈیو بناتے ہوئے دریا میں ڈوب گئے، کچھ نوجوان تیز رفتار گاڑی چلاتے ہوئے ویڈیو ریکارڈ کے دوران جاں بحق ہوگئے، جبکہ ایک واقعے میں نوجوان بلند عمارت کے کنارے کھڑے ہوکر ویڈیو بناتے ہوئے نیچے گر کر جاں بحق ہوگیا۔
ایسی خطرناک ویڈیوز بناتے ہوئے دنیا میں ان گنت افراد اپنی زندگی گنوا چکے ہیں جبکہ پاکستان میں بھی ٹک ٹاک ویڈیوز ریکارڈ کرتے ہوئے متعدد اموات ہو چکی ہیں۔ گزشتہ روز بھی ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے اچانک گولی چل جانے سے ایک نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا تھا اور خوف کے باعث اس نوجوان کے بھائی نے بھی خود کو گولی مار کر اپنی جان بھی لے لی۔
پاکستان میں ٹک ٹاک ویڈیو ایپلیکیشن استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے سنہ 2019 میں پاکستان میں ٹک ٹاک استعمال کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ 35 لاکھ تھی جو کہ 4 برسوں میں پڑھ کر 3 کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔
بچے، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، بزرگ مرد و خواتین اور تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ٹک ٹاک پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو صبح شام دن رات اپنے ذوق کے مطابق ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھتے نظر آتے ہیں۔ دکانوں میں بیٹھے سیلزمین، بسوں میں سفر کرنے والے مسافر، سرکاری و نجی دفتروں میں کام کرنے والا عملہ، طلبا، اساتذہ ہر کوئی ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھتا نظر آتا ہے۔
ٹک ٹاک ایپلیکیشن پر حکومت نے 3 مرتبہ پابندی عائد کی تاہم ٹک ٹاک کی جانب سے قابل اعتراض مواد ہٹانے کی یقین دہانی پر عدالت نے نومبر 2021 کو حکومت کو ٹک ٹک سے پابندی ہٹانے کی ہدایت کی تھی۔
گزشتہ روز خانیوال کے 2 بھائیوں کی ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے جان چلی گئی۔ دونوں بھائی پستول کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیو بنا رہے تھے کہ ایک سے اچانک گولی چل گئی اور دوسرے کو جا لگی جس سے وہ موت کے گھاٹ اتر گیا۔ بھائی کوخون میں لت پت دیکھ کر دوسرے بھائی نے بظاہر پشیمانی و خوف کے مارے خود کو بھی گولی مار لی اور اس طرح ایک ویڈیو بناتے ہوئے ایک ہی گھر کے 2 چراغ بچھ گئے۔
اس سے قبل 11 اگست 2020 کو راولپنڈی کے علاقے شاہ خالد میں 18 سالہ حمزہ نوید ریلوے ٹریک پر ٹک ٹاک بناتے ہوئے ریل گاڑی کی زد میں آکر اپنی جان گنوا بیٹھا۔
سکھر میں 22 سالہ عبد الغفار 7 فروری 2023 کو ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے لیے اپنے رشتے دار سے پستول لے کر گھر آیا اور ویڈیو بناتے ہوئے اچانک گولی لگ جانے سے موقع پر ہی دم توڑ گیا۔
کراچی کے علاقے سچل کالونی میں 17 سالہ لڑکا تنویر 21 جون 2020 کو پستول لہرا لہرا کر ٹک ٹاک ویڈیو بنا رہا تھا اچانک گولی چل گئی جس کے لگنے سے وہ مارا گیا۔
سیالکوٹ میں 16 سالہ لڑکا عمار حیدر دسمبر 2019 کو اپنے دوست کے ہمراہ پستول کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے اچانک گولی چلنے سے جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔
کراچی کے علاقے کورنگی میں 28 جنوری 2020 کو تیز رفتار گاڑی چلاتے ہوئے ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے دوران نوجوانوں سے گاڑی بے قابو ہوکر ایک درخت سے ٹکرا گئی جس کے باعث فراز نامی نوجوان کی جان چلی گئی جبکہ اس کے 2 دوست ایاز اور احسن کو شدید زخمی حالت میں اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔
شہر قائد کی ایک آبادی بھینس کالونی میں جمعہ گوٹ ریلوے اسٹیشن کے قریب ریلوے ٹریک کے سامنے ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے کاشف نامی 22 سالہ نوجوان ریل گاڑی کی زد میں آکر
کراچی کے علاقے گلشن معمار میں 20 سالہ سیکیورٹی گارڈ ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے گارڈ نے پہلے بندوق میں گولی بھری اور پھر اپنے سینے کی طرف کر کے اس کی لبلبی دبادی اور نتیجتاً گولی جسم میں پوست ہوجانے سے دم توڑ گیا۔
اس سے قبل 17 اگست 2020 کو دریائے ستلج کے کنارے ٹک ٹاک ویڈیو بنانے والے 2 نوجوان بھی جاں بحق کو چکے ہیں۔ ویڈیو بناتے ہوئے نوجوان دریا کے قریب چلے گئے اور پاؤں پھسلنے سے گرے اور دریا میں ڈوب گئے۔ ان کی لاشیں 20 گھنٹے بعد بہاولنگر کے قرب و جوار سے ملیں۔
سوات کے علاقے کابل میں 19 مئی 2021 کو 19 سالہ لڑکے حامد اللہ سے ٹک ٹاک ویڈیو ریکارڈ کرتے ہوئے غلطی سے گولی چل گئی جس سے وہ اپنی جان گنوا بیٹھا۔ حامد اللہ کا ارادہ ایک فرضی خودکشی کی ویڈیو بنانا تھا لیکن اچانک گولی چل جانے سے وہ ڈرامہ حقیقت کا روپ دھار گیا۔