8 نومبر: یوم انور مسعود

بدھ 8 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آسٹریلیا اور افغانستان کے میچ نے توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔ مچل اسٹارک نے افغانی کپتان حشمت اللہ کو 26 رنز پر بولڈ کیا تو ٹی وی پر فوراً ہی ’اشتہار بازی‘ شروع ہوگئی، موقع سے فائدہ اٹھاتے ہی جیو نیوز لگایا تو نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی ہنگامی پریس کانفرنس میں اسموگ کی بدترین صورتحال کے باعث لاہور ڈویژن، گوجرانوالہ اور حافظ آباد میں دفعہ 144کے علاوہ 4 روز کے لیے ماحولیاتی اور ہیلتھ ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان فرما رہے تھے۔

کہا گیا کہ تعلیمی ادارے، سرکاری و نجی دفاتر، سنیما، پارکس اور ریسٹورنٹ بند رہیں گے۔ کیونکہ سموگ کی وجہ سے بچوں اور بزرگوں کو سانس اور آنکھوں کے امراض لاحق ہو رہے ہیں۔ لکیر پیٹنے کے مصداق ایمرجنسی کا اعلان سنا تو لبوں پر انور مسعود صاحب کا قطعہ نازل ہوا:

تیرا اپنا ہی کیا آیا ہے تیرے سامنے
تو اگر بیمار پڑ جائے تو واویلا نہ کر
میں بتاتا ہوں تجھے صحت کا بنیادی اصول
جس ہوا میں سانس لیتا ہے اسے میلا نہ کر

مناہل نے پوچھا پاپا یہ آپ کا شعر ہے؟ میں نے بتایا کہ انور مسعود صاحب کا قطعہ ہے۔ وہ اردو کے واحد شاعر ہیں جنہوں نے ماحولیات کے قتل عام پر مختص شعری مجموعہ ’میلی میلی دھوپ‘ تخلیق کیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مجموعے کو نصاب میں شامل کرے۔ پھر میں نے موبائیل پر انور مسعود لکھا تو ان کی تصویر ابھر آئی ساتھ ہی یہ خوشگوار اطلاع بھی ملی کہ آج ان کی 87ویں سالگرہ ہے۔ انہوں نے ’یوم اقبال‘ سے قبل 8 نومبر 1935 کو گجرات میں آنکھ کھولی تھی، سوچا آج ’یوم انور مسعود‘ ہے کیوں نہ آج کی تحریر اردو، پنجابی اور فارسی کے لیونگ لیجنڈ  پروفیسر انور مسعود صاحب کے نام کر دی جائے۔

راقم اسلام آباد میں سید ضمیر جعفری کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں انور مسعود صاحب کے ہمراہ

انور مسعود صاحب کو سن بھی رکھا تھا اور خاصا پڑھ بھی لیا تھا، بالمشافہ ملاقات کا موقع نہیں ملا تھا۔ ان دنوں میں روزنامہ ’جناح‘ اسلام آباد سے بطور میگزین ایڈیٹر منسلک تھا، جب اپریل 2005 کے اواخر میں انہوں نے ایڈیٹر عبدالودود قریشی صاحب کی گزارش پر ادارتی صفحے کے لیے ’قطعہ نگاری‘ شروع کی تھی۔ جب کبھی وہ تشریف لاتے تو نیازمندی کی سبیل نکل آتی تھی۔

پھر 2008 کے وسط میں، میں نے جیونیوز جوائن کرلیا اور انور مسعود صاحب بھی کچھ عرصہ بعد روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہوگئے۔ وہ کہتے ہیں ’اُن کی قطعہ نگاری کا آغاز ایوب خان کے دورِ حکومت میں رویت ہلال کے حوالے سے چھڑنے والی ایک بحث سے ہوا اور تب سے اب تک وہ اس صنفِ سخن میں طبع آزمائی کرتے چلے آ رہے ہیں۔‘

 2021 میں ان کی قطعات کی کلیات بک کارنر جہلم نے شائع کی تھی۔ وہ کتاب خوشی کے متلاشیوں کے لیے نسخہ کیمیا سے کم نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دیگ کا دانہ چکھ کر ہی دیگ کے ذائقے کا علم ہوجاتا ہے۔ قطعات تو آپ کلیات خرید کر ہی پڑھیں لیکن چلتے چلتے کچھ عنوانات ملاحظہ کریں اور حظ اٹھائیں: اردوئے محلہ، کچراچی، موذی مودی، جہلِ عالمانہ، بے قائمی ہوش و حواس، قہر در قاہرہ، اَن فراموش ایبل، لاری میں لارا، کربِ کبیرہ، اُوں ہُوں، اعجازِ عجز، جیسے چونکا دینے والی عنوانات شامل ہیں۔

مینارہ ظرافت سید ضمیر جعفری کہا کرتے تھے ’طنز و مزاح کی شاعری میں انور مسعود نے شاید پہلی مرتبہ ایک ایسا لطیف جال بن کر بچھایا ہے کہ نہ بڑی مچھلی اس کو توڑ سکتی ہے اور نہ چھوٹی مچھلی نظر بچا کر نکل سکتی ہے، اُس نے جبر و استحصال کے مختلف مظاہر کو اپنے نشتروں کا ہدف بنایا ہے اور جہالت کے خلاف بھی پوری قوت سے جہاد کیا ہے وہ ایک بالغ نظر شاعر ہے، وہ جانتا ہے کہ جہالت کا دوسرا نام زندوں کی موت ہے، اُس کا فن دل آویز ہے، اُس کے اظہار میں کوئی جھول نہیں، اُس کے اکثر شعر شیشے کے ایک ہی تختے سے تشکیل پاتے ہیں، مجھے وہ فلسفے اور آرٹ کے اس سنگم پر نظر آتا ہے جہاں فلسفہ عالم بناتا ہے اور ادب انسان۔ وہ مینار کی تعمیر اور کردار کی تشکیل کے فرق سے واقف ہے، اُس کے اسلوب میں ایسی تازگی اور بے ساختگی کا احساس ہوتا ہے کہ جیسے وہ ’سیکنڈ ہینڈ‘ الفاظ لکھتا ہی نہ ہو، انور مسعود کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اظہار اور ابلاغ کی سطح کو قائم رکھتا ہے، ناہمواریوں پر اس کا تبصرہ بڑا ہموار ہے، طنز و مزاح کے حوالے سے میں یہ بات کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہنا چاہتا ہوں کہ جس تخلیقی فنکاری سے انور مسعود نے کشمکش کو شگفتگی بنا دیا ہے اُس کی مثال اکبر الہ آبادی کے بعد اردو کی فکاہیہ شاعری میں ایک عہد آفریں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے قطعات کے مطالعے کے دوران میری روح پر ایک ایسی شبنم قطرہ زن رہی ہے جیسے وہ سرگوشی کر رہی ہو کہ خدا کی بہترین تخلیق خوبصورت پھول یا خوبصورت عورت ہی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سچا شاعر بھی خدا کی بہترین تخلیق ہے۔‘

10 مئی 2009: انور مسعود صاحب کے انٹرویو کے موقع پر

مئی 2009 میں مجھے ذمہ داری سونپی گئی کہ سید ضمیر جعفری صاحب کی 10ویں برسی کی مناسبت سے رپورٹ تیار کی جائے، چونکہ برسی 12 مئی کو تھی، اور شہر میں صرف ایک شخصیت ہی ایسی تھی جن سے سید ضمیر جعفری صاحب کے بارے بات کی جا سکتی تھی۔ 9 مئی کو انور صاحب سے فون پر وقت لیا اور کیمرامین شہزاد رفیق کے ہمراہ ان کے گھر جا کر ان کی رائے ریکارڈ کی۔ انہوں نے نپی تلی مدلل گفتگو کے ساتھ ایک نظم بھی سنائی تھی جو جعفری صاحب کی یاد میں لکھی گئی تھی:

جان محفل تھا خدا بخشے ضمؔیر
پیکر درویشی و دانشوری
قیسِ لیلائے وطن، سید ضمیر جعفری
اللہ اللہ اس کے لفظوں کی پھَبن
اس کا رنگ سخن
جس طرح چشم بصیرت میں تبسم کی کرن
پھوٹتا تھا اس کی لے سے دمبدم
اک طلسمی زیروبم
کیسا بھنگڑا ڈالتا تھا اس قلندر کا قلم
نغمگی کے پھول سے کھلتے ہوئے
تارِ جاں ہلتے ہوئے
شیر افضؔل اور مجید امجؔد گلے ملتے ہوئے
اس کے ہاں بھوپال بھی، چکوال بھی
گیسوئے بنگال بھی
دل میں جو سیدھے اترتے ہیں وہ نینی تال بھی
اس کے پہلو میں دل غم خوار تھا
لب تبسم زار تھا
وہ ضمیر عصر حاضر کس قدر بیدار تھا۔

انور مسعود صاحب نے بتایا تھا کہ اس نظم کا پہلا مصرعہ جعفری صاحب کے شعر سے ہی لیا گیا ہے۔ پھر ان کا وہ شعر بھی سنایا تھا:
جان محفل تھا خدا بخشے ضمؔیر
اب تو اِک مدت سے شوہر ہو گیا

اس موقع پر انور مسعود صاحب نے اپنا شعری مجموعہ ’اک دریچہ اک چراغ‘ بھی آٹو گراف کے ساتھ عنایت کیا تھا جو آج بھی میری لائیبریری کی شان ہے۔

بڑے نمناک سے ہوتے ہیں انور قہقہے تیرے

کوئی دیوار گریہ ہے ترے اشعار کے پیچھے

انور مسعود صاحب کا کہنا ہے کہ ’شدید گھٹن کے اس دور میں مزاح ہی ایک ایسا دریچہ ہے جو فراوانی کے ساتھ آکسیجن فراہم کرتا ہے۔۔۔۔ ہنستے ہنستے تارِ احساس بھی تھّرا اُٹھے تو میرے نزدیک مزاح کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ میرا مسلک یہ ہے کی حرفِ سادہ کو گرہ دار بنانے سے حتی الامکان گریز کیا جائے لیکن اس طرح نہیں کہ شاعر، آرائشِ عروسِ سخن سے بے گانہ ہو جائے۔ فنی پیش کش میں جمال آفرینی تو پہلی شرط ہے۔‘

مشتاق احمد یوسفی صاحب نے کہا تھا ’سادگی اور شگفتگی انور کے قطعات کا جوہر اور دھیماپن اور شائستگی ان کے لہجے کی پہچان ہے۔ وہ تحریف، تضمین اور پیروڈی ایسی فن کارانہ مہارت سے کرتے ہیں کہ اصل کو بھی اپنا ہی کرشمۂ کلام بنا کر دکھا دیتے ہیں۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی فارسی پر نظر کرتا ہوں تو بےاختیار جی چاہتا ہے کہ اگر سِن و سال کا تفاوت بےجا درمیان میں حائل نہ ہوتا تو میں ایسے اُستاد کا شاگرد ہونا اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھتا۔‘

انور مسعود صاحب اردو کے واحد شاعر ہیں جنہوں نے ماحولیات کے قتل عام پر شعری مجموعہ ’میلی میلی دھوپ‘ تخلیق کیا ہے

انور مسعود صاحب کمال کی حس مزاح رکھتے ہیں، جس زمانے میں اورینٹل کالج کے شعبۂ فارسی میں ایم اے کر رہے تھے، ایک روز پروفیسر وزیر الحسن عابدی نے چپراسی کو چاک لانے کو کہا کہ تختۂ تحریر پر کسی علمی نکتے کی وضاحت مقصود تھی۔ چپراسی جب بہت سے چاک جھولی میں ڈالے کمرے میں پہنچا تو ان کی رگِ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے چپراسی کی جھولی کی طرف عابدی صاحب کو متوجہ کرتے ہوئے پوچھا: سر! دامنِ صد چاک اسی کو کہتے ہیں؟

میرے صحافی دوست اعظم خان بتاتے ہیں کہ ایک دعوت میں مجھ سے انور صاحب کی قیمص پر تھوڑا سا دہی گر گیا تھا، لیکن انہوں نے خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا، پھر مدت بعد ان کے گھر ملاقات کا اتفاق ہوا تو ان کے صاحبزادے نے یاد دلایا کہ یہ وہی اعظم خان ہیں جنہوں نے آپ کی قیمص پر دہی گرایا تھا۔ تو انور صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ میں نے ’جوابدہی‘ کرلی ہے۔

’میلہ اکھیاں دا‘پنجابی کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے۔ اسلام آباد ادبی میلے میں اپنے مداح کے ہمراہ

کہتے ہیں’میں نے ڈاکٹر محمد باقر کو داخلہ فارم پیش کیا تو انہوں نے فارم کو بڑے غور سے دیکھا اور مجھ پر ایک گہری نظر ڈالی اور پوچھنے لگے کہ کیا تم فارسی پڑھ کر تیل بیچو گے ؟ میں نے جواباً عرض کیا کہ ’ڈاکٹر صاحب! کیا آپ تیل بیچ رہے ہیں؟‘ یہ غیرمتوقع جواب سن کر وہ مسکرائے اور فوراً میرے فارم پر دستخط کر دیے۔ جس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے نائب قاصد سے کہا کہ اگلی امیدوار قدرت الٰہی صدیقہ کو بلایا جائے۔ یہ انوکھا سا نام سن کر میں بہت متعجب ہوا۔ چند لمحوں کے بعد ایک لڑکی داخل ہوئی جو بڑی پروقار شخصیت کی حامل، متانت اور مشرقیت کا پیکر اور مجسم شائستگی دکھائی دیتی تھی۔‘

مذکورہ واقعہ انہوں نے اپنی کتاب ’صرف تمہارا انور مسعود‘ میں لکھا ہے۔ یہ کتاب ان خطوط کا مجموعہ ہے جو انہوں نے اپنی اہلیہ صدیقہ انور کے نام لکھے، کچھ شادی سے پہلے اور کچھ شادی کے بعد لکھے گئے۔ وہ خط کے آخر میں لکھا کرتے تھے:’ صرف تمھارا ‘ اسی تناظر میں کتاب کا نام رکھا گیا ہے ’صرف تمھارا انور مسعود ‘۔ یہ کتاب اردو ادب میں اہم اضافہ ہے۔

ممتاز شاعر اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی نے انور مسعود کو اپنے دور کا نظیر اکبر آبادی کہا تھا جبکہ معروف شاعر اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد نے انہیں ’آج کا نظیر اکبر آبادی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا ’دونوں نے اپنی اپنی شاعری میں عوام، عوامی زبان اور عوامی محسوسات اور مشاہدات کو جس مہارت، خوش اسلوبی اور برجستگی سے سمویا ہے اس میں کوئی تیسرا اُن کے برابر تو کیا اُن کے نزدیک بھی نہیں پھٹک سکا۔‘

حکومت پاکستان نے سن 2000 میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس عطا کیا تھا جبکہ رواں برس ان کے لیے ہلال امتیاز کا اعلان کیا گیا ہے۔ انور مسعود صاحب کہتے ہیں ’میرا سب سے بڑا ایوارڈ یہ ہے کہ عام آدمی اور ریڑھی چھابڑی والے بھی مجھے میری نظمیں سناتے ہیں،عوام میں اتنی قبولیت، اللہ کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔‘


ان کی ایک نظم جو مجھے بہت پسند ہے: کراں تا کراں
آسماں پہ بادل تھے
اور زمین پر انورؔ
اس کا سانولا پن تھا

ان کی متعدد کتابیں مختلف جامعات کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔ مختصراً کہا جائے تو فارسی، اردو اور پنجابی ادب کے لیے انور مسعود صاحب کی خدمات و تخلیقات ’اَن بیان ایبل‘ ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp