جنرل فیض حمید کیخلاف زمین قبضہ کیس: سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ان چیمبر سماعت اور عدالتی کارروائی غیر قانونی قرار دیدی

بدھ 8 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر) فیض حمید کے خلاف زمین قبضہ کیس میں سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ان چیمبر سماعت اور عدالتی کارروائی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کے مطابق رجسٹرار آفس کی جانب سے کسی درخواست پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے خلاف صرف چیمبر اپیل کا تصور موجود ہے۔

آرڈر میں مزید کہا گیا ہے کہ زاہدہ جاوید اسلم کی درخواست پر متعلقہ عدالت پہلے ہی فیصلہ کر چکی ہے؛ جبکہ کنور معیز احمد خان ریٹائر فوجی افسران کے خلاف وزارت دفاع اور متعلقہ فورمز پر درخواستیں دائر کر سکتے ہیں۔ اور درخواستیں نمٹا دی گئیں۔

یاد رہے کہ آج صبح سپریم کورٹ میں زمین قبضے کے الزام میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے خلاف ہیومن رائٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ نے درخواست میں سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیس میں خود پیش ہوں گے یا وکیل کے ذریعے؟ اس پر درخواست گزار نے جواب دیا کہ کل ہی وکیل کیا ہے۔ اس لیے کیس کی سماعت کو مختصر عرصے کے لیے ملتوی کر دیں۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ التوا نہیں دیں گے ابھی ہی تیاری کر لیں۔ اس کے بعد عدالت نے درخواست گزار معیز احمد خان کے وکیل کو تیاری کے لیے وقت دے دیا۔ اور  سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔

جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف درخواست پر وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ 12 مئی 2017کو جنرل(ر) فیض حمید کے حکم پر ان کے گھر اور دفتر پر چھاپہ مارا گیا۔  معیز احمد خان اور ان کے اہلخانہ کو اغواء کیا گیا۔ اس غیر قانونی چھاپے میں ان کے گھر سے قیمتی سامان اور سوسائٹی کا ریکارڈ چوری کرلیا گیا۔ درخواست گزار نے جنرل (ر) فیض حمید اور ان کے بھائی کے خلاف قانونی کارروائی کی استدعا کردی۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس حوالے سے عدالت کیا کر سکتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کوئی نوٹس لیا تھا؟

وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے براہ راست تو کوئی کارروائی نہیں کی تھی،  وزارت دفاع انکوائری کرنے کی مجاز ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ  زاہدہ نامی کسی خاتون کی درخواست بھی زیر التوا ہے۔

وکیل معیز احمد  نے معزز عدالت کو بتایا کہ زاہدہ کا انتقال ہوچکا ہے، درخواست کی کاپی دیں تو جائزہ لے لیتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جائزہ لے لیں لیکن تاریخ نہیں دے سکتے، چائے کے وقفے کے بعد سماعت کریں گے۔ اس کے بعد سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا۔

 فیض حمید کے خلاف ہیومن رائٹس کیس کی وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ

جو اب تک اس کیس سے ہم سمجھ پائے وہ آپ کو بتا رہے ہیں ، برطانیہ کی شہری زاہدہ اسلم نے 2017 میں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184 تین کا کیس دائر کیا، زاہدہ جاوید اسلم کی درخواست پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے فریقین کو 6اور 15 نومبر2018 کو چیمبر میں طلب کیا اور کیس چلایا۔

اس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس پاکستان چیمبر میں اکیلے سنگل جج کے طور پر فریقین کو طلب کر کے کیس چلا سکتا ہے؟ جبکہ کیس میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود ہی ایف آئی اے، پولیس اور سی ٹی ڈی وغیرہ کو نوٹس کیا۔

اسی نوعیت کی درخواست زاہدہ اسلم نے چیف جسٹس گلزار کے سامنے بھی رکھی، سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں آرٹیکل 184 تین کی درخواستیں دائر کی گئیں، اورجو درخواست ہمارے سامنے ہے یہ بھی 184 تین کے ہی تحت دائر کی گئی ہے،

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے نام پر ایچ ار سیل کیسے کوئی خط لکھ سکتا ہے؟ اور زاہدہ جاوید اور کنور معید کی درخواستیں 184(3) کے تحت کیسے آتی ہیں؟ درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ کنور معیز کی درخواست 184(3) کے زمرے میں اتی ہے۔

ہیومن رائٹس سیل غیر قانونی ہے، جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے اس موقع پر ریمارکس دیے’ہیومن رائٹس سیل اور سپریم کورٹ میں فرق ہے، کیس کے حقائق میں نہ جائیں۔ میں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ہیومن رائٹس سیل غیر قانونی ہے۔ ہیومن رائٹس سیل کسی قانون کے تحت قائم نہیں ہے‘۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’ماضی میں ہیومن رائٹس سیل کے ذریعے بدترین ناانصافیاں ہوئی ہیں، کوئی چیف جسٹس قانونی دائرہ اختیار سے باہر کے معاملات پر نوٹس نہیں لے سکتا‘ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جو معاملہ جوڈیشل دائرہ اختیار میں آیا ہی نہیں اس پر چیف جسٹس نے سماعت کیسے کی؟

درخواست میں مزید کیا کچھ ہے اور فریقین کون کون ہیں؟

واضح رہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف درخواست گزار معیز احمد خان نے، جو ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے چیف ایگزیکٹو افیسر ہیں، اپنی درخواست میں جنرل (ر) فیض حمید کے علاوہ  حساس ادارے کے دو اعلیٰ افسران سمیت 100 نامعلوم افراد کو فریق بنایا ہے۔

درخواست میں جنرل (ر) فیض حمید پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے  قیمتی سامان اور سوسائٹی کے ریکارڈ سے متعلقہ دستاویزات واپس کرنے سے انکار کردیا۔  بعدازاں کچھ دستاویزات حساس ادارے کے مختلف پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کی شرط پر واپس کردی گئیں۔ حساس ادارے کے دو اعلیٰ افسران  نے بذات خود 4 ٹویوٹا ریووز گاڑیاں اور آفس ریکارڈ واپس کیا۔

درخواست میں مزید الزام عائد کیا گیا  کہ درخواست گزار سے نہ صرف جبراً 4 کروڑ روپے  وصول کیے گیے بلکہ چند ماہ تک ’آپ ٹی وی نیٹ ورک‘ کو سپانسر کرنے پر بھی مجبور کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp