بالآخر سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔ انہیں یہ تحفظات ہیں کہ پیپلز پارٹی کو کبھی بھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دیا گیا۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کیا ہے؟ اس کے وضعی معانی تو آسان ہیں لیکن استعمالی معانی وسیع ہیں جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس لحاظ سے نمایاں بھی ہیں کہ یہاں الیکشن سے زیادہ ‘سلیکشن’ ہی ہوتے آئے ہیں۔
2018 کے الیکشن کے بعد جس میں مبینہ طور پر آر ٹی ایس تک بند کر دیے گئے تھے، عوام کے لیے بھی اس راز سے پردہ اٹھ گیا ہے اور اس وقت ہر دوسرا بندہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو اپنی اپنی سوچ کے تناظر میں دیکھ رہا ہے۔ نواز شریف کے آنے کے بعد ایک عام رائے سامنے آ رہی ہے کہ آنے والے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف ہی وزیراعظم بنائے جائیں گے لیکن اگر نواز شریف کی سیاسی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو ایسا کہنا اور سوچنا قبل از وقت ہوگا۔ کیونکہ نظام کو کوئی ایسا وزیراعظم قابلِ قبول نہیں ہوگا جو حکمرانی کرے اور جس کے طاقتور حلقوں کے سامنے رکاوٹ بننے کا خدشہ ہو لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا کہ ہمارا سیاسی کلچر ایسا ہے کہ رائے عامہ ایک ہی آنکھ سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔
جہاں ایک طرف انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی نے واضح سٹانس لیا وہیں دوسری طرف نواز شریف کی ملک واپسی کے بعد ن لیگ سے اسی طرح کے مطالبے کی توقع تھی اور سوچا جارہا تھا کہ میاں صاحب لاہور جلسے میں انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کریں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور انتخابات کی تاریخ کے اعلان تک مسلم لیگ ن کی طرف سے کوئی واضح پیغام اس حوالے سے سامنے نہیں آیا تھا۔
بلاول بھٹو کا تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ اصولی طور پر سو فیصد درست ہے اور میرا ماننا ہے کہ اگر پاکستان میں سسٹم مظبوط ہو سکتا ہے تو اس کا طریقہ کار فری اینڈ فیئر انتخابات ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی مصنوعی قیادت نے پاکستان کے جمہوری سسٹم اور آزاد ہوتی ہوئی میڈیا کی کمر توڑ دی، اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ تحریک انصاف کو بھی وہی ہموار گراؤنڈ ملنا چاہئے جس کا مطالبہ بلاول بھٹو کر رہے ہیں۔ بطورِ جمہوریت پسند ہمارے خیالات تحریک انصاف کے حوالے سے کئی بار اصولوں کی حدود توڑ دیتے ہیں لیکن بطورِ انسان تحریک انصاف کی لیڈرشپ کے کرتوتوں سے سخت تکلیف بھی تو پہنچتی آئی ہے، معاشرے کو بھی نظام کو بھی بالخصوص عام لوگوں کی معاشی زندگی درہم برہم ہوگئی۔ لیکن اگر نظام کی بہتری درکار ہو تو تحریک انصاف کو انتخابات اور سیاسی مہم کی مکمل آزادی دینا ہی ملک کے بہترین مفاد میں ہے کیونکہ ہم اختلافات کو سامنے بھی رکھتے ہیں تب بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ تحریک انصاف ایک خاص عوامی حمایت رکھتی ہے۔
بظاہر تو نگران حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف بھی انتخابات میں آزادی کے ساتھ حصہ لے سکتی ہے لیکن کیا عملی طور پر ایسا دکھائی دے رہا ہے؟
مجھے نہیں لگتا بلکہ انصاف یوتھ ونگ کا ایک ضلعی کارکن بتا رہا تھا کہ ایک دن فیس بک پر پوسٹ کیا تھا کہ شام کو کارنر میٹنگ کریں گے جس کے بعد میرے موبائل پر کالز کی بہتات شروع ہوئی اور مجھے توبہ تائب ہونا پڑا۔
آنے والے انتخابات کے حوالے سے خیبرپختونخوا کی بڑی سیاسی جماعت، جے یو آئی، کی خاموشی بھی سوالات کی زد میں تھی لیکن ہم اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بظاہر تو جے یو آئی خیبرپختونخوا کی بڑی سیاسی جماعت ضرور ہے لیکن صوبے کے سیاسی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو جے یو آئی کی مظبوطی چند حلقوں میں پائیدار نظر آتی ہے اور نتائج بھی اسی کے مطابق سامنے آرہے ہیں۔ البتہ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی بصیرت کا کمال ہے کہ جے یو آئی کو خیبرپختونخوا کے علاوہ قومی سیاست میں بھی اہم مقام حاصل ہے۔ اکثر مبصرین جے یو آئی کی عوامی حمایت کی مثال صوبے میں ایم ایم اے کی حکومت کو مدنظر رکھ کر دیتے ہیں لیکن اگر اس وقت کے زمینی حقائق اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ضروریات کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو یہی نظر آئے گا کہ 2018 کے انتخابات اور ان انتخابات میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ صرف ایک فرق تھا کہ ان دنوں سیاسی میدان میں سوشل میڈیا موجود نہیں تھا ہاں یہ بات سچ ہے کہ ایم ایم اے حکومت کے بعد جے یو آئی نے خیبرپختونخوا کی سیاست میں کافی طاقت حاصل کر لی ہے۔ بالخصوص ان کے کارکنوں کے معاشی حالات کافی بہتر ہوئے اور تنظیمی معاملات میں جے یو آئی سب سے زیادہ منظم جماعت قرار دی جا سکتی ہے۔ میرے خیال میں مولانا صاحب کو زمینی حقائق کا مکمل ادراک ہے شاید اسی لیے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ان کی رائے الٹ تھی اور اس وقت صوبے میں بظاہر نگران حکومت بھی تو حقیقت میں مولانا صاحب کی ہی ہے۔
سیاست، سیاسی مفادات کا کھیل ہے البتہ لیول پلیئنگ فیلڈ سب کو ملنی چاہیے۔ یہی جمہوریت کا حسن کہلاتا ہے اور اسی سے معاشرے میں استحکام آتا ہے،نظام مظبوط ہوتے ہیں اور ایسا کرنا ہی اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے میاں نواز شریف اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ وہ کوئی ایسی حکومت نہیں لیں گے جس سے ان کے سیاسی کیرئیر کا آخری حصہ داغدار بنے۔ ہم امید رکھیں گے کہ جس پھلتے پھولتے سیاسی نظام کو عمران خان کے ذریعے زمین بوس کرایا گیا تھا، نواز شریف اس کی دوبارہ بنیادیں ڈالنے جا رہے ہیں اور اس کی ابتداء تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے سے ہو گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔














