غزہ پر اسرائیلی بمباری شروع ہوئے دوسرا مہینہ آن پہنچا ہے اور اس دوران عالمی رہنماؤں کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر بڑھتی ہوئی ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، لیکن لاطینی امریکا میں بائیں بازو کے رہنماؤں کی طرح مغرب میں بہت کم ناقدین بلند آہنگ اور دوٹوک لہجے میں اپنے جنگ مخالف جذبات کا اظہار کررہے ہیں۔
بولیویا نے ’غزہ کی پٹی میں ہونے والی جارحانہ اور غیر متناسب اسرائیلی فوجی کارروائی‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات 31 اکتوبر کو منقطع کر لیے تھے، اس تنقید کی بازگشت اس وقت پھر سنائی دی جب کولمبیا اور چلی نے بھی اسی دن اسرائیل سے اپنے سفارت کاروں کو واپس بلانے کا اعلان کیا۔
کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر پوسٹ کیا کہ اگر اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام نہیں روکتا تو ہم وہاں نہیں رہ سکتے، ان کا یہ پیغام ان کے چلی کے ہم منصب گیبریل بورک کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کو ’غزہ میں فلسطینی آبادی کیخلاف اجتماعی سزا‘ قرار دینے کے چند منٹ بعد سامنے آیا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مذمت کی یہ کارروائیاں لاطینی امریکا سے ایک طاقتور سگنل بھیجتی ہیں، ایک ایسا خطہ جس نے بڑے پیمانے پر اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات، جو کبھی کبھار تناؤ کا شکار بھی رہتے ہیں، برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہر موریسیو ہارامیلو سمجھتے ہیں کہ لاطینی امریکا انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی اس طرح کی واضح خلاف ورزیوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
موریسیو ہارامیلو کا کہنا ہے کہ لاطینی امریکی رہنماؤں کی تیز بیان بازی دوسرے مغربی رہنماؤں کے بیانات کے بالکل برعکس ہے، جیسا کہ امریکی صدر جو بائیڈن، جو اسرائیل پر اپنی تنقید میں حد سے زیادہ محتاط رہے ہیں۔
لاطینی امریکا کے سفارتی ردعمل کے جواب میں، اسرائیلی وزارت خارجہ نے کولمبیا اور چلی سے مطالبہ کیا کہ دونوں ممالک اپنے شہریوں کے تحفظ کے حق کی حمایت کریں، بصورتِ دیگر حماس کی دہشت گردی کی حمایت کرنا اپنے آپ کو وینزویلا اور ایران کے ساتھ صف بندی کے مترادف ہو گا۔
اسرائیل نے بولیویا کی جانب سے دوطرفہ تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے فیصلے کو ’دہشت گردی کے سامنے ہتھیار ڈالنے‘ سے تشبیہ دی۔
La República de Colombia va a coadyuvar la denuncia de la Republica de Argelia interpuesta ante la Corte Penal Internacional por crímenes de guerra contra el señor Benjamín Netanyahu ante la masacre de niños y civiles del pueblo palestino que ha producido.
El canciller de…
— Gustavo Petro (@petrogustavo) November 9, 2023
بولیویا، چلی اور کولمبیا اسرائیل کیخلاف اپنی تنقید میں تنہا نہیں تھے، جمعے تک، ہونڈوراس میں بائیں بازو کی حکومت نے اسی طرح اسرائیل سے اپنے سفیر کو “مشاورت” کے لیے واپس بلا لیا تھا اور غزہ کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ جبالیہ پر گزشتہ ہفتے کی بمباری کے بعد، لاطینی امریکا کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مزید رہنماؤں نے جارحیت پر آمادہ اسرائیل کے خلاف آواز اٹھائی۔
لاطینی امریکا میں سب سے بڑی یہودی برادری رکھنے والے ارجنٹائن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے مگر بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
بائیں بازو کی سیاست پر سرد جنگ کی میراث
تاہم غزہ کا موجودہ تنازع پہلی بار نہیں ہے جب لاطینی امریکا کے بائیں بازو کے رہنماؤں نے اسرائیل کے خلاف موقف اختیار کیا ہو، بین الاقوامی تعلقات کے ماہر موریسیو ہارامیلو نے نشاندہی کی کہ کیوبا کے فیڈل کاسترو 1973 میں اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے والے پہلے لاطینی امریکی رہنما تھے۔
سرد جنگ کے دوران کاسترو کے اس اعلانیہ فیصلے نے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت اور اس کے سب سے بڑے کیوبا مخالف اتحادی یعنی امریکا کے لیے ایک سرزنش کا کام کیا تھا۔
فلسطینی تارکین وطن گروپوں کی انجمن، لاطینی امریکا کی فلسطینی یونین کے نائب صدر جہاد یوسف کے مطابق، سرد جنگ کی وراثت نے لاطینی امریکا کے بائیں بازو کے رہنماؤں کو فلسطینی مقصد سے ہمدردی جتانے پر مجبور کیا ہے، کیونکہ سرد جنگ کے دوران امریکا نے لاطینی امریکا میں فوجی آمریتوں کی حمایت کی جو بائیں بازو کی تحریکوں کو کچل رہی تھیں۔
جہاد یوسف نے دلیل دی کہ وہ تاریخ غزہ کی جدید دور کی صورتحال کے متوازی کے استوار ہے، جہاں امریکا ایک ایسی مہم میں اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے جس نے انسانی حقوق کے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔
لاطینی امریکا کی سرد جنگ کے دور میں گوئٹے مالا اور ارجنٹائن جیس ریاستوں پر امریکی حمایت یافتہ فوجی آمریتوں کے لیے ہتھیاروں کے بڑے ڈیلر کے طور پر اسرائیل نے اپنا کردار ادا کیا، جہاد یوسف کے مطابق لاطینی امریکا میں سامراجیت وہی ہے جو مشرق وسطی میں سامراجیت ہے۔
نقل مکانی کے ساتھ تجربات
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں کی آباد کاری نے لاطینی امریکی رہنماؤں میں بھی پہچان کا احساس پیدا کیا ہے، 1948 میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے دوران خطے میں طویل عرصے تک مغربی مداخلت کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر ہونے کا سامنا کرنا پڑا، اقوام متحدہ مغربی کنارے جیسے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع کو غیر قانونی قرار دیتا رہا ہے۔
اس حقیقت کی بھی تاریخی طور پر لاطینی امریکا میں گونج سنائی دیتی ہے، جہاں ایک اندازے کے مطابق 4 کروڑ لوگ مقامی شہریوں کے طور پر شناخت رکھتے ہیں، جو یورپی نوآبادیات کے حصے کے طور پر اپنی آبائی زمینوں اور نسلی امتیاز سے بے دخلی کی وراثت کے ساتھ جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر مینوئل ریران سمجھتے ہیں کہ لاطینی امریکا میں ترقی پسند تحریکیں ’فلسطینی مقصد‘ کو نوآبادیاتی نظام کی ضد کے طور پر پہچانتی ہیں۔ ’وہ فلسطین سے اس وجوہ کی بنا پر تعلق جوڑتے ہیں کیونکہ آج لاطینی امریکا میں نظر آنے والا عدم مساوات دراصل نوآبادیاتی نظام کا ورثہ ہے۔
کچھ سیاسی تجزیہ کاروں مثلاً سیسیلیا بیزا سمجھتے ہیں کہ لاطینی امریکا کے مقامی گروہوں نے فلسطینی کاز کی حمایت میں قائدانہ کردار بھی ادا کیا ہے، چلی اور بولیویا میں، جہاں یہ سیاسی ہم آہنگی خاص طور پر مضبوط ہے، یہ غیر معمولی بات نہیں ہے کہ فلسطینی تارکین وطن تنظیموں اور مقامی تحریکوں دونوں کی جانب سے فلسطینی یکجہتی کے مظاہرے منعقد کیے گئے ہوں۔
سیاسی تقسیم اور اسرائیل سے تعلقات کی تشکیل
فلسطینی مقصد کی حمایت لاطینی امریکا میں بھی سخت نظریاتی خطوط پر استوار ہے، بولیویا کے معاملے میں، ملک کے پہلے مقامی اور سوشلسٹ صدر ایوو مورالس بھی 2009 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے والے پہلے رہنما تھے، لیکن ان کی جانشین، دائیں بازو کی جینین اینز نے عہدہ سنبھالنے کے چند ہفتوں کے اندر ہی تعلقات کی تجدید کا فیصلہ کرلیا تھا۔
بولیویا کے موجودہ صدر لوئس آرس کو موجودہ دور کی ’گلابی لہر‘ کا حصہ سمجھا جاتا ہے، بائیں بازو کی جانب یہ رجحان 2018 میں میکسیکو میں صدر مینوئل لوپیز اوبراڈور کے انتخاب کے ساتھ شروع ہوا اور ارجنٹائن، بولیویا، پیرو، ہونڈوراس اور چلی میں بائیں بازو کی فتوحات کے ساتھ جاری رہا۔
کولمبیا میں، 2022 کے انتخابات میں سیاسی پلڑا بائیں بازو کے حق میں جھولنا خاص طور پر تاریخی تھا کیونکہ اس سے قبل کبھی بھی بائیں بازو کے صدر نے عہدہ نہیں سنبھالا تھا، تاہم کولمبیا میں صدر گستاو پیٹرو کی فتح نے تازہ ترین ’گلابی لہر‘ تحریک کی کچھ کمزوریوں کو ظاہر کیا ہے۔
دوطرفہ تعلقات توڑنے کی قیمت
اپنی صدارت کا فقط ایک سال مکمل کرنے کے بعد، صدر گستاو پیٹرو کی عوامی حمایت کی درجہ بندی 32 فیصد تک گر چکی ہے، کیونکہ وہ دائیں بازو کے مضبوط ردعمل کے خلاف اپنے سیاسی ایجندے کے نفاذ میں سخت مشکل سے دوچار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے صدر پیٹرو پر مشرق وسطی کے بحران کو اپنی ملکی پریشانیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔
تھنک ٹینک کرائسز گروپ کی سینئر تجزیہ کار الزبتھ ڈکنسن نے اس منطق پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ گھر پر رائے عامہ جیتنے کے بجائے صدر پیٹرو کا اسرائیل کے خلاف موقف اختیار کرنے کا فیصلہ ان سے اس کی سیاسی قیمت وصول کرسکتا ہے۔
پیٹرو کی جانب سے اسرائیلی وزیر دفاع کے تبصروں کا نازیوں کے بیانات سے موازنہ کرنے کے بعد، اسرائیل نے کولمبیا کو اپنی فوجی برآمدات معطل کر دی ہیں، جس میں باغی افواج کے خلاف حکومت کی کوششوں میں استعمال ہونے والے طیاروں اور مشین گنوں کی فروخت بھی شامل ہے۔
ایلزبتھ ڈکنسن نے خبردار کیا کہ دیگر لاطینی امریکی رہنماؤں کے اقدامات اور تبصرے بھی اسی طرح کے نتائج کا باعث بن سکتے ہیں، ایک ایسے وقت کہ جہاں صرف اسرائیل کی دفاعی برآمدات ساڑھے 12 ارب ڈالر کی صنعت ہے۔ ’یہ کوئی آسان یا واضح فیصلہ نہیں ہے۔ “یہ واضح طور پر ایک سیاسی انتخاب ہے جو ان رہنماؤں نے اپنے مفادات کے لیے ممکنہ خطرات کے باوجود کیا ہے۔‘
ایلزبتھ ڈکنسن کا کہنا ہے کہ کولمبیا، چلی اور بولیویا جیسے ممالک کی جانب سے سفارتی سرزنش کے بعد اس کا امکان نہیں ہے کہ اسرائیل کو جنگ کو بڑھانے سے باز رکھا جاسکے۔ ’یہ وہ ممالک ہیں جن کا اسرائیل کے ساتھ کوئی قطعی اقتصادی یا سیاسی تعلق نہیں ہے، جو تنازعہ کو کسی نہ کسی طریقے سے بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔‘
تاہم اس نوعیت کی تنقید اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکا پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالتا ہے، ایلزبتھ ڈکنسن کو شبہ ہے کہ جنوبی امریکی ممالک نے گزشتہ جمعہ کو واشنگٹن میں بین الاقوامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر اپنے اقدامات کا اعلان کیا۔
صدر گستاو پیٹرو اور صدرگیبریل بورک دونوں نے اس ملاقات کا استعمال اپنے امریکی ہم منصب کو اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرنے کی ترغیب دینے کے لیے کیا، ایلزبتھ ڈکنسن کے مطابق یہ لاطینی امریکی رہنماؤں کے لیے نقطہ آغاز ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے مطالبے کو آگے بڑھا سکیں۔