19 سالہ ہارون حامد کا نام پاکستان میں لاکھوں لوگوں کے ہونٹوں پر اس وقت آیا جب انہوں نے ورلڈ کپ کوالیفائنگ تاریخ کا سب سے شاندار گول اسکور کیا۔ پاکستان، ہارون حامد کے گول کی بدولت کمبوڈیا کو 1-0 سے شکست دے کر پہلی بار فٹبال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کرنے کے دوسرے مرحلے میں پہنچ گیا تھا۔
لندن میں پیدا ہونے والے مڈفیلڈر ہارون نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ ’ گول اسکور کرنے کے بعد میں انتہائی پرجوش تھا اور مجھے مداحوں کے سامنے گھٹنوں پر سلائیڈ کرنا پڑی۔‘
اس جیت کا صلہ اب تک کا سب سے بڑا میچ ہے، جو سعودی عرب کے خلاف کھیلا گیا۔ سعودی عرب، ورلڈ کپ فاتح ارجنٹائن کو شکست دینے والی واحد ٹیم ہے۔
پاکستان دنیا کی پانچویں سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی 24 کروڑ کے لگ بھگ ہے، لیکن اس کی فٹبال ٹیم عالمی درجہ بندی میں 193 ویں نمبر پر ہے۔ جزیرے ’اروبا‘ سے ایک درجہ نیچے اور ’سیشیلز‘ سے دو درجہ اوپر۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی پروفیشنل لیگ بھی نہیں ہے۔
ہارون کہتے ہیں یہ ایک اہم وجہ ہے کہ ان جیسے برٹش پاکستانی کھلاڑیوں کو دوہری شہریت کے قوانین کے تحت قومی ٹیم کے لیے کھیلنے کے لیے بلایا جا رہا ہے، مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ پاکستان کی فٹبال ٹیم ہے، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ایک دن ان کے لیے کھیلوں گا، لیکن موقع ملا اور بڑے ہجوم کے سامنے عالمی سطح پر کھیلنا ایک خواب کی تعبیر ہے، امید ہے کہ جیت کے بعد میرے جیسے مزید نوجوان کھلاڑی پاکستان کے لیے کھیلنے پر غور کریں گے۔
ہارون حامد اسکواڈ میں شامل واحد برٹش پاکستانی کھلاڑی نہیں ہیں۔ ان کی ٹیم کے ساتھیوں میں انگلینڈ کی انڈر 19 ٹیم کے سابق کپتان عیسیٰ سلیمان اور اوٹس خان شامل ہیں جو انگلینڈ کی لیگ ٹو میں گریمسبی کی جانب سے کھیلتے ہیں۔
پاکستان پلیئنگ الیون میں شامل ہونے کی امید رکھنے والے ایک اور کھلاڑی 21 سالہ عمران کیانی ہیں جو پہلی بار پاکستانی اسکواڈ میں شامل ہوئے ہیں۔ وہ ووکنگ میں پلے بڑھے اور برائٹن میں غیر لیگ ٹیم وائٹ ہاک ایف سی کے لیے کھیلتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے بہت پرجوش ہوں۔
کمبوڈیا کے خلاف جیت پاکستان میں فٹبال کے لیے بہت ضروری اور حوصلہ افزائی تھی، کیوں کہ 8 برس بعد ٹیم نے ہوم میچ کھیلا تھا۔ فیفا نے پاکستان فٹبال کی باڈی کو گزشتہ 4 برس میں 2 بار معطل کیا تھا۔ لیکن عمران کیانی کو یقین ہے کہ ان جیسے برٹش پاکستانی کھلاڑی ٹیم میں بہتری لا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں اکیڈمیوں میں بہت سا برٹش ایشین ٹیلنٹ موجود ہیں۔ ہم واقعی پاکستان کو ایک اچھی سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔ کھلاڑیوں کے لیے برطانیہ کی طرف دیکھنے میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے برطانوی مینیجر اسٹیفن کانسٹنٹائن ہیں۔
وہ ایشیا میں سب سے زیادہ کامیاب فٹبال کوچوں میں سے ایک ہیں، انہوں نے اپنے 20 سالہ کیریئر میں 2 بار ہندوستان سمیت 7 قومی ٹیموں کی کوچنگ کی ہے۔
اسٹیفن نے حال ہی میں ’بی بی سی اسپورٹس‘ کو بتایا تھا کہ پاکستان کی کوچنگ کرنا ان کے لیے اب تک کا سب سے مشکل چیلنج ہوگا، لیکن انھیں یقین ہے کہ وہ اپنی تاریخی فتح کو آگے بڑھانے کے لیے اچھے کھلاڑیوں کو تلاش کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس ان تمام کھلاڑیوں کی فہرست ہے جو ہمارے لیے کھیل سکتے ہیں اور میں انہیں دیکھنے کے لیے دنیا کا سفر کرنے جا رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہر ملک کی طرح یہاں بھی ٹیلنٹ موجود ہے۔ یہ صرف اسے تلاش کرنے اور تیار کرنے کا معاملہ ہے۔ ہارون حامد جیسے برطانوی کھلاڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں کتنا بڑا موقع دیا گیا ہے۔ ہمیں فٹ بال کھیلنے والی قوم کے طور پر ترقی کرنے کی ضرورت ہے، امید ہے کہ یہ ہمارے لیے شروعات ہیں۔