کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے انتہائی مطلوب دہشتگردوں کی ایک اور فہرست جاری کر دی ہے اور ان کے سروں کی قیمتیں مقرر کی گئی ہیں۔
سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کی گئی فہرست میں سابق صحافی اور سرکاری آفیسر سمیت ہلاک دہشتگردوں کے نام بھی شامل ہیں۔
مطلوب دہشتگردوں کی فہرست میں 153 نام شامل
محکمہ انسداد دہشتگردی نے 152 مطلوب دہشتگردوں کی ایک فہرست جاری کی ہے، جس میں دہشت گردوں کے سر کی قیمتیں مقرر کی گئی ہیں۔
دہشت گردوں کی اطلاع پر 10 لاکھ روپے سے لے کر ایک کروڑ روپے تک انعام مقرر کیا گیا ہے۔ جبکہ اطلاع دینے والے کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔
مزید پڑھیں
احسان داوڑ حسب معمول حیات آباد میں واقع اپنے سرکاری دفتر میں دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف تھے کہ واٹس ایپ گروپ میں ایک طویل فہرست شئیر کی گئی جو سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کی گئی تھی۔
سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری فہرست میں دہشتگرد کا نام، تصویر، شناختی کارڈ نمبر سمیت تمام تفصیلات شامل کی گئی ہیں۔ اس فہرست میں پی ڈی ایم اے کے پبلک ریلیشن آفیسر احسان الرحمان کا نام بھی شامل کیا گیا ہے جس کے سر کی قیمت 10 لاکھ مقرر کی گئی ہے۔
احسان الرحمان جو اپنا نام احسان داوڑ لکھتے ہیں نے وی نیوز کو بتایا کہ اپنا نام اور تصویر دہشتگردوں کی فہرست میں دیکھ کر جھٹکا لگا۔ ’ میں معمول کے مطابق دفتر میں اپنے کام میں مصروف تھا کہ اچانک واٹس ایپ گروپ میں فہرست شیئر ہوئی جس میں میرا نام موجود تھا اور تصویر بھی لگی ہوئی تھی، ابتدائی طور پر لگا کہ شاید کوئی غلطی ہوئی ہے لیکن دوبارہ دیکھا تو تصویر، شناختی کارڈ نمبر، ضلع اور گھر کا پتا بھی درج تھا‘۔
احسان داوڑ کون ہے؟
احسان داوڑ کا تعلق دہشتگردی سے متاثرہ قبائلی ضلع شمالی وزیرستان سے ہے۔ جو سرکاری نوکری سے پہلے علاقے کے نامور صحافی تھے۔
احسان داوڑ روزنامہ مشرق و مشرق نیوز کے بیورو چیف رہ چکے ہیں اور وہ مصنف بھی ہیں۔ احسان داوڑ دیگر مین اسٹریم اردو نیوز چینلز کے ساتھ بھی وابستہ رہے ہیں۔
احسان داوڑ نے چند برس قبل اس وقت صحافت کو خیرباد کہا جب ان کی ایف ڈی ایم اے میں ترجمان کی حیثیت سے تقرری ہو گئی۔ جس کے بعد سے وہ سرکاری محکمے میں گریڈ 17 میں پبلک ریلیشن آفیسر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے بعد وہ پی ڈی ایم اے میں آ گئے ہیں۔
سرکاری آفیسر کا نام دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کرنا بلنڈر ہے
احسان داوڑ اپنا نام دہشتگردوں کی فہرست میں آنے کے بعد انتہائی پریشان ہیں اور انہوں نے اس کو بلنڈر قرار دیا ہے۔ ’میں خود ایک ادارے کا ترجمان ہوں، کوئی بھی ہینڈ آؤٹ جاری کرنے سے پہلے 10 بار چیک کرتے ہیں اور متعلقہ حکام سے منظوری لیتے ہیں، سی ٹی ڈی نے کس طرح یہ کام کر دیا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا خاندان وزیرستان میں ہی مقیم ہے۔ جبکہ وہ خود پوسٹنگ کے باعث پشاور میں رہائش پذیر ہیں۔ احسان داوڑ نے بتایا کہ ان کے گھر والے، بچے اور دیگر رشتہ دار بھی سخت پریشان ہیں۔ اس کے علاوہ دوست بھی رابطہ کر رہے ہیں۔
احسان داوڑ نے سی ٹی ڈی لسٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ ان کا دہشتگردی یا دہشتگردوں سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ انہیں پورا وزیرستان جانتا ہے، اب تو لگتا ہے کہ اس لسٹ میں اور بیگناہوں کے نام بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
لسٹ میں ہلاک دہشتگردوں کے نام بھی شامل
پشاور میں مقیم وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی رسول داوڑ نے بھی سی ٹی ڈی لسٹ پر سوالات اٹھا دیے۔ انہوں نے کہاکہ فہرست میں ایسے لوگوں کے نام بھی شامل ہیں جو مختلف کارروائیوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ہلاک مبینہ دہشتگردوں کے نام بھی اس لسٹ میں ہیں۔ تاہم انہوں نے نام بتانے سے گریز کیا۔
’لسٹ میں دہشتگردوں کے سر کی قیمت مقرر کی گئی ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ جن ہلاک افراد کے نام شامل کیے گئے ہیں ان کا انعام کون لے گا‘۔
سرکاری آفیسر آرمی چیک پوسٹ پر حملے میں مفرور ہیں، سی ٹی ڈی
سی ٹی ڈی نے موجودہ سرکاری آفیسر و سابق صحافی کا نام انتہائی مطلوب دہشتگردوں کی لسٹ میں شامل کر کے سر کی قیمت مقرر کرنے پر وضاحت جاری کر دی ہے۔
سی ٹی ڈی کے مطابق سرکاری محکمے میں پی آر او کی حیثیت سے خدمت انجام دینے والے آفیسر شمالی وزیرستان میں خرقمر آرمی چیک پوسٹ پر حملے کے الزام میں سی ٹی ڈی کو مطلوب ہیں۔
سی ٹی ڈی نے بتایا کہ سابق صحافی کے خلاف سی ٹی ڈی میں قتل، انسداد دہشتگردی اور دیگر دفعات کے تحت ایف آئی آر درج ہے جو سی ٹی ڈی بنوں نے 26 مئی 2019 کو درج کی تھی۔ عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے سے انکار پر ان کو مفرور قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ ڈی پی او شمالی وزیرستان نے ان کے سر پر 10 لاکھ مقرر کرنے کی سفارش کی جس پر محکمہ داخلہ و قبائلی امور خیبر پختونخوا نے نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے بعد سی ٹی ڈی لسٹ میں ان کا نام شامل کیا گیا۔
سی ٹی ڈی نے مزید کہا ہے کہ اس معاملے پر مزید انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔
خرقمر چیک پوسٹ واقعہ کب ہوا؟
مئی 2019 کو پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر شمالی وزیرستان میں جاری دھرنے میں شرکت کے لیے جارہے تھے، ان کے ساتھ محسن داوڑ اور دیگر کارکنان بھی تھے، خرقمر کے مقام پر نا خوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں کئی جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔ پولیس کے مطابق پی ٹی ایم کی ریلی کو آگے جانے کی اجازت نہ ملنے پر ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔
سی ٹی ڈی پولیس نے علی وزیر کو گرفتار کر کے ایف آئی آر درج کی تھی جس میں محسن داوڑ اور احسان داوڑ بھی نامزد تھے۔
اس کے بعد واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرائی گئی اور جاں بحق مقامی افراد کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی کی گئی اور کیس کو انسداد دہشتگردی عدالت ابیٹ آباد منتقل کر دیا گیا تھا۔
صوبائی حکومت بعد میں کیس سے دستبردار ہو گئی تھی جس پر علی وزیر، محسن داوڑ اور احسان داوڑ سمیت دیگر نامزد افراد بری ہو گئے تھے۔
سی ٹی ڈی کے حکام کے مطابق احسان داوڑ اسی کیس میں مطلوب تھے۔ جو بری ہو گئے ہیں تاہم ڈی پی او کی جانب سے گزشتہ سال ان کا نام آیا تھا جو شامل کیا گیا۔