پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کی اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کے گھر آمد اور ملاقات میں عام انتخابات میں انتخابی اتحاد پر بات چیت ہوئی اور اسے آئندہ ملاقات میں آگے لے جانے پر اتفاق ہوا۔
ن لیگ کے ذرائع نے وی نیوز کو بتایا کہ میاں نواز شریف کی نظریں وفاق پر ہیں جس کے لیے وہ چھوٹے صوبوں پر بھی خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف نے ن لیگ خیبر پختونخوا کے اندرونی اختلافات کو ختم کرنے کا ٹاسک دیا ہے اور کپٹن صفدر اسی سلسلے میں پشاور ائے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نواز شریف اندرونی اختلافات اور کچھ سنیئیر رہنماؤں کے ناراض ہونے پر خوش نہیں ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ بااثر سیاسی شخصیت کو بھی پارٹی میں شامل کیا جائے۔
کیا ن لیگ اور جے یو آئی کا اتحاد ممکن ہے؟
پشاور کے سنیئیر صحافی فدا عدیل کہتے ہیں کہ ن لیگ اور جے یو آئی کا اتحاد ممکن ہے اور دونوں جانب کے قائدین کو اندازہ ہے کہ اتحاد ان کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف کا ووٹ بینک اپنی جگہ ہے اور اگر یہی صورت حال رہی تو دیگر سیاسی جماعتوں کو مشکل ہو سکتی ہے‘۔
فدا عدیل نے کہا کہ نواز شریف کو حکومت بنانے کے لیے انتخابی اتحاد کے علاوہ بھی سیاسی جماعتوں کی حمایت چاہیے ہوگی جس کے لیے ابھی سے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کو قومی اسمبلی کی نشتیں یا حمایت چاہیے اور کے پی میں یہ کام جے یو آئی کر سکتی ہے۔
انہوں ں نے بتایا کہ مولانا کی نظریں خیبر پختونخوا میں حکومت پر بھی ہے اس کے لیے انہیں بھی ایک مضبوط اتحادی کی ضرورت ہے۔
نواز شریف جے یو آئی سے کیا چاہتے ہیں؟
نواز شریف وطن واپسی کے بعد سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اور بلوچستان کے بعد آئندہ چند روز میں ان کی پشاور آمد بھی متوقع ہے جس سے پہلے انہوں نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔
علاوہ ازیں چند دن قبل کپٹن صفدر نے نواز شریف کا اتحاد کا پیغام لے کر پشاور میں اے این پی کی قیادت سے ملاقات کی تھی۔ اے ین پی ترجمان ثمر ہارون بلور نے وی نیوز کو بتایا تھا کہ نواز شریف پشاور دورے کے دوران اے این پی قیادت سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں جس وہ عام انتخابات میں ممکنہ اتحاد پر بات کریں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف کا پیغام واضح ہے کہ انہیں کے پی حکومت میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ ان کا ہدف وفاقی حکومت کا حصول ہے جس کے لیے انہیں اتحادیوں کا ساتھ چاہیے۔
صحافی فدا عدیل نے بتایا کہ ن لیگ اور جے یو آئی کے ممکنہ اتحاد میں نواز شریف قومی اسمبلی کی نشتوں پر حمایت کا مطالبہ کر سکتے ہیں اور بدلے میں صوبائی اسمبلی میں جے یو آئی کی حمایت کی جاسکتی ہے۔
ممکنہ اتحاد سے جے یوآئی کو کیا فائدہ ہو گا؟
عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے میں مولانا فضل الرحمان نے اہم کردار ادا کیا تھا اور تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فام پر جمع کرکے بظاہر حکومت ن لیگ کو دی تھی مگر کابینہ میں برابر کے حصے دار تھے جبکہ آئندہ عام انتخابات میں ن لیگ سے اتحاد کرکے ن لیگ کی حکومت بننے کی صورت میں وہ دوبارہ بھی حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں۔
نوجوان صحافی زائد امداد کا خیال ہے کہ اس اتحاد سے مولانا فضل الرحمان کو فائدہ ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ن لیگ دیگر صوبوں میں بھی بہتر پوزیشن میں ہے اور ایک ہوا چل چکی ہے کہ نواز شریف کی حکومت آنے والی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ا گئی تو مولانا اتحادی ہوں گے اور ان کے بیٹے وزیر۔ انہوں نے مزید کہا کہ مولانا بھی حکومت میں رہنا چاہتے ہیں اور حکومت کو بھی معاملات آسانی سے چلانے کے لیے مولانا کی ضرورت ہوگی۔
پشاور کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی محمد فہیم کا خیال مختلف ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ممکنہ انتخابی اتحاد سے دونوں جماعتوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اتحاد کے باوجود بھی ایک اتحادی پارٹی کے ووٹرز دوسری اتحادی جماعت کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے اور یہ ماضی میں ہو چکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ن لیگ اندرونی اختلافات سے دوچار ہے جس کا مولانا کو بخوبی اندازہ ہے اور جنوبی اضلاع جہاں جے یوائی کی پوزیشن بہتر ہے وہاں ن لیگ انتہائی کمزور ہے۔
محمد فہیم نے کہا کہ چوں کہ ان دنوں ن لیگ کی ایک ہوا چل رہی ہے اور یہ گمان کیا جا رہا ہے کہ آئندہ حکومت ن لیگ کی ہوگی تو اس لحاظ سے مولانا کو اس اتحاد سے صوبائی سطح پر کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ سکتا ہے۔
ماضی میں اتحادی کامیاب نہیں ہوئے
محمد فہیم کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے کچھ خاص فائدہ نہیں ہوتا اور اصل فائدہ صرف حکومت بنانے کے لیے اتحاد سے ہی ہوتا ہے۔
حالیہ پی ڈی ایم دور حکومت میں ن لیگ، جے یوآئی، اے این پی اور دیگر جماعتوں نے اتحاد کیا اور پی ٹی آئی کے خلاف اختلافات کے باوجود بھی ایک ہوکر ضمنی انتخابات میں حصہ لیا لیکن کامیابی نہیں ملی۔
چارسدہ میں اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی کو شکست ہوئی جبکہ مردان میں جے یو آئی کے امیدوار کو جس کا ایمل ولی کو اب بھی دکھ ہے اور وہ جے یو آئی کو کھل کر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
محمد فہیم کا کہنا ہے کہ اتحاد کے بعد ووٹرز کو قائل کرنا مشکل مرحلہ ہے اور ایک جماعت کے ووٹرز دوسری جماعت کے امیدوار کے لیے نہیں نکلتے جس سے اتحاد کے باوجود فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ البتہ الیکشن کے بعد حکومت سازی میں فائدہ ضرور ہوتا ہے۔
مولانا کی نظریں کے پی حکومت پر
زائد امداد کا خیال ہے کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی مقبولیت سے تمام سیاسی جماعتوں کو نقصان ہوا ہے تاہم گزشتہ 2 برسوں میں مولانا نے اپنی جماعت کو کافی حد تک مضبوط کیا ہے جس کی ایک بڑی مثال بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن میں ہونے کے باوجود بھی بڑی کامیابی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وفاق میں مولانا کی حکومت نہیں ا سکتی لیکن صوبے میں حکومت بنانے کے لیے وہ سرگرم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مولانا ایسی جماعت سے اتحاد خوشی سے کریں گے جو صوبے میں حکومت سازی میں دلچسپی نہ رکھتی ہو۔
زائد امداد کا کہنا تھا کہ مولانا کی جماعت جنوبی اضلاع اور ن لیگ ہزارہ میں مضبوط ہےجبکہ گزشتہ گزشتہ دور حکومت میں جے یو آئی صوبے میں دوسری بڑی جماعت تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اگر صوبے میں جے یو آئی کی حکومت نہ بھی آئی تو وہ وفاق میں نمائندگی لے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ن لیگ کی حکومت اتی ہے تو مولانا صدر کے امیدوار بھی بن سکتے ہیں۔
کیا تحریک انصاف اب بھی دیگر جماعتوں کے لیے ایک چیلنج ہے؟
صحافی فدا عدیل کا خیال ہے کہ کوششوں کے باوجود بھی تحریک انصاف کے ووٹ بینک پر کچھ اثر نہیں پڑا ہے اور بلے کا نشان ہوا تو ووٹ اسی کو پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک برقرار ہے جو دیگر جماعتوں کے لیے بھی بڑا چیلنچ ہے اور پرویز خٹک کی جانب سے الگ جماعت بنانے کے باوجود بھی پی ٹی آئی کی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا ووٹ عمران خان اور بلے کا ہے اور امیدواروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز عمران خان کو دیکھتے ہیں ان کے امیدواروں کو نہیں۔
زائد امداد بھی تحریک انصاف کو دیگر جماعتوں کے لیے بڑا چیلنچ مانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو توڑا نہیں جا سکا ہے جس کا دیگر جماعتوں کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتحاد کے باوجود پشاور اور دیگر اضلاع میں پی ٹی آئی کو ہرانا بڑا چیلنچ ہو گا۔