پنجاب، خیبرپختونخوا الیکشن ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات 90 دنوں میں کرانے کا حکم دے دیا ، اس فیصلے کو فریقین اپنی اپنی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ کا کہنا ہے ’ میں وزیر کی حیثیت سے نہیں بطور وکیل کہہ رہا ہوں کہ یہ پٹیشن چار، تین کے تناسب سے خارج ہوگئی ہے ‘ دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کا کہنا ہے کہ عدالت کے پانچوں ججز نے ان کے موقف کو تسلیم کیا ہے۔‘
اعظم نزیر تارڑ ، وفاقی وزیر قانون
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ بطور وکیل کہہ رہا ہوں ، یہ پٹیشن چار، تین کے تناسب سے خارج ہوگئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے انتخابات کے حوالے سے ازخودنوٹس کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں، نہ ہی یہ تشریح طلب معاملہ ہے۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ موصول نہیں ہوا، ٹی وی کے ذریعے مجھ تک پہنچا ہے، تحریری فیصلہ پڑھنے تک اور کابینہ میں اس پر بحث کرنے تک میں بطور وزیر قانون اس پر بات نہیں کرسکتا۔
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی ازخود نوٹس پر اختلاف کیا تھا، آج فیصلے میں دو جج صاحبان نے مزید کہہ دیا ہےکہ یہ قابل سماعت نہیں۔
ان کا مزیدکہنا تھا کہ اس پر فیصلہ لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں ہونا چاہیے جہاں اس حوالے سے درخواستیں دائر ہیں۔
فوادچودھری ، رہنما تحریک انصاف
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے عدالتی فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کا فیصلہ آئین کی فتح ہے اور یہ ایک متفقہ فیصلہ ہی ہے، ہمارے مؤقف کو پانچوں ججوں نے تسلیم کیا ہے، ہماری نظر میں یہ ججمنٹ پانچ صفر سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کے الیکشن کا اعلان صدر کریں گے اور کے پی میں گورنر الیکشن کا اعلان کریں گے، عدالت نے وفاق کو سکیورٹی اور تمام وسائل فراہم کرنے کا پابند کیا ہے، عدالت نے کہا کہ سب کچھ 90 دن میں ہونا ہے۔
خواجہ سعد رفیق ، رہنما مسلم لیگ ن
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ صوبائی اسمبلی انتخابات کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون اور انصاف کے بنیادی تقاضوں کے منافی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ معاشی سیاسی اور آئینی بحران کی بنیاد نظریۂِ ضرورت اور پسند ناپسند کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے ہیں۔ ممبران کے ووٹ گنے بغیر انھیں ڈس کوالیفائی کرتے وقت آئین کی دستک کیوں سنائی نہیں دی؟ ریویو کیوں نہیں سنا گیا؟
’’کسی جواز اور وجہ کے بغیر فرد واحد کے غیر آئینی حکم اور ذاتی خواہش پر صوبائی اسمبلیاں توڑی گئیں مگر آئین کی دستک نہیں سنی گئی ، نہ کوئی نوٹس لیا گیا۔‘‘
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججز کی رائے کو بار بار نظر انداز کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ عدالتوں پر عمرانی ٹولے کی بار بار چڑھائی کے باوجود آئین اور قانون کی دستک کیوں نہیں سنی گئی ؟
انھوں نے کہا کہ پرانی مردم شماری پر2 صوبائی اسمبلیوں کے فوری انتخابات کروانے اور نئی مردم شماری پر قومی و 2 صوبائی انتخابات کروانے کا فیصلہ انتشار اور افراتفری پیدا کرے گا؟ تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات بڑے سیاسی حادثات اور تقسیم کی بنیاد بن سکتے ہیں جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اقتدار میں واپسی کیلئے عمران اور اس کے سہولت کاروں کی جلد بازی اور ضِد ریاست کیلئے خطرہ بن گئی ہے ۔
شیخ رشید احمد ، سربراہ عوامی مسلم لیگ
سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوا تو ملک میں خون خرابہ ہو گا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی جمہوری تایخ کا اہم ترین دن ہے، معاشی، سماجی و سیاسی استحکام ملے گا یا ملک سیاسی انتشار و خلفشار میں چلا جائے گا، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے آئی ایم ایف نے 98 جیسی 4 مزید سخت شرائط کا مطالبہ کیا ہے۔
شہزاد عطا الہٰی، اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے کہا ہے کہ جسٹس منصور کے نوٹ کا دوسرا پیراگراف اہمیت کا حامل ہے، اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ دو ججز کے نوٹ سے اتفاق کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے کہا کہ بڑی تیز رفتاری سے عدالتی کارروائی ہوئی، پرسوں صبح سے شام 6 تک سماعت چلی اور کل بھی 9 سے 6 عدالت چلی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے چیف جسٹس نے 9 ممبر بینچ بنایا، دو فاضل ججز جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اختلاف کیا، اختلافی نوٹ کے فٹ نوٹس میں کہا ہے کہ جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہرمن اللّٰہ کا نوٹ بھی کیس کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ اس طرح 4 ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے، یہ 7 میں سے 3 ججز کا فیصلہ ہے، کیس 9 ممبر بینچ سے شروع ہوا تھا، 23 فروری کو دو ممبران نے کیس کو مسترد کر دیا تھا۔
جہانگیر جدون ، ماہر قانون
ماہر قانون جہانگیر جدون نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے تنازعہ مزید گہرا کردیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ فل کورٹ بن جاتی۔ فل کورٹ فیصلہ کرتی تو تمام سیاسی جماعتوں کو یہ فیصلہ قبول ہوتا۔ لوگوں کو فیصلہ پر اعتماد ہوتا۔ اب اس بنچ کو دیکھیں ، جسٹس یحییٰ آفریدی نے نوٹ لکھا ہے کہ میں بنچ میں بیٹھنا چاہتا تھا لیکن مجھے اس بنچ سے باہر کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اب جب بینچ بنتے ہیں تو لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں فیصلہ آئے گا۔ کل ہی لوگ کہہ رہے تھے کہ تین ، دو سے فیصلہ آئے گا۔ دو ہائی کورٹس میں یہ فیصلہ زیر التوا ہے ، سپریم کورٹ یہ ڈائریکشن دے سکتی ہے کہ آپ دو ،تین روز کے اندر کیس کا فیصلہ کرے،اس کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آتا تو مناسب فیصلہ آجاتا۔
جہانگیر جدون نے کہا کہ نو رکنی بینچ بنا رہتا تو اچھا ہوتا۔ دو ارکان کو دانستہ طور پر بینچ سے باہر کیا گیا ہے۔ یہ بات انھوں نے اپنے نوٹ میں لکھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو فیصلہ ان کے ذہن میں تھا ، وہ انھوں نے سنا دیا ہے۔ اس فیصلہ پر تنقید کرنا میرا حق ہے۔ انھوں نے ان ججز کو بینچ سے باہر نکالا جو کہتے تھے کہ یہ پٹیشن قابل سماعت نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نہیں چاہتی کہ تنازعہ ختم ہو ۔اگر اس عدالت نے ایک ہی دن میں فیصلہ کرنا تھا ، تو فل کورٹ بینچ بیٹھ جاتی۔اس میں کیا حرج تھا؟
معیز بیگ ، قانونی ماہر
قانونی ماہر معیز بیگ کا کہنا تھا کہ اس کے 2 پہلو ہیں، پہلا یہ کہ عدالت عظمیٰ نے قرار دے دیا ہے کہ انتخابات 90 روز کے اندر ہوں گے اور اس آئینی اصول سے انحراف ممکن نہیں اور اگر کسی بھی وجہ سے اس میں تاخیر ہو تو یہ خطرناک مثال ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کو اس معاملے کا از خود نوٹس لینا چاہیے تھا بالخصوص اس وقت کہ جب یہی معاملات ہائی کورٹس میں زیر التوا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس میں ایک اور مسئلہ انتہائی اہم ہے جو عدلیہ کی آزادی اور عوام کے عدلیہ پر اعتماد سے متعلق ہے اور وہ بینچ کی تشکیل کا ہے۔
معیز بیگ نے کہا کہ جس طرح سپریم کورٹ کے 2 سینیئر ججز کو ہٹا کر 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا اور اس کے بعد چیف جسٹس کے حکم پر مزید ججز کو نکال کر دوبارہ بینچ تشکیل دینا، اس سے عدالت کی جانبداری کے حوالے سے تحفظات پیدا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد اور عدالت کی غیر جانبداری بھی متاثر ہوتی ہے۔
ماہر قانون نے کہا کہ میرے خیال میں چیف جسٹس کی جانب سے اس معاملے کا ازخود نوٹس لینے کے باوجود یہ کیس اور اس میں جاری کردہ فیصلے نے جوابات دینے سے زیادہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔